اسرائیل کا بیروت میں حزب اللہ کے ہیڈکوارٹرز پر حملہ، حسن نصر اللہ کو نشانہ بنانے کا دعویٰ
بیروت; اسرائیل نے لبنان کے دارالحکومت بیروت کے جنوبی مضافات میں حزب اللہ کے مرکزی ہیڈکوارٹرز پر متعدد فضائی حملے کیے ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ یہ حملے حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ کو نشانہ بنانے کے لیے کیے گئے تھے۔ تاہم، فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ حملے میں حسن نصر اللہ کو کوئی نقصان پہنچا ہے یا وہ محفوظ رہے ہیں۔ حزب اللہ کی جانب سے بھی اس حوالے سے کسی قسم کی تصدیق یا تردید سامنے نہیں آئی ہے۔
عالمی اور عرب میڈیا رپورٹس کے مطابق، اسرائیلی فضائیہ نے بیروت میں "البرج” نامی ایک مخصوص عمارت پر 10 سے زائد میزائل داغے، جس سے چار عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ حملے کے مقام پر امدادی کارروائیاں فوری طور پر شروع کر دی گئیں اور ہلال احمر و دیگر ریسکیو ٹیمیں زخمیوں کو نکالنے میں مصروف ہیں۔ الجزیرہ کے مطابق اس حملے میں ابتدائی طور پر دو افراد کے شہید ہونے کی اطلاع ہے، جبکہ مزید جانی نقصان کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کیونکہ علاقے میں بڑی تباہی ہوئی ہے۔
اسرائیلی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ ان حملوں کا مقصد حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کو نشانہ بنانا تھا، جو مبینہ طور پر اُس وقت مرکزی فوجی ہیڈکوارٹرز میں موجود تھے۔ اسرائیل نے کہا کہ عمارت کے زیرِ زمین حصے میں حزب اللہ کا ایک اہم دفتر قائم تھا جہاں تنظیم کی مرکزی قیادت بھی موجود تھی۔ اسرائیل کے مطابق، یہ حملہ گزشتہ پانچ دنوں سے جاری فضائی کارروائیوں کا سب سے بڑا اور طاقتور حملہ تھا جس نے چار عمارتوں کو مکمل طور پر ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔
ایرانی میڈیا اور حزب اللہ کے قریبی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ حسن نصر اللہ اس حملے میں محفوظ رہے ہیں۔ رائٹرز نے بھی حزب اللہ کے ایک کمانڈر کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ حسن نصر اللہ کو حملے کے دوران کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ تاہم، اس بارے میں مزید معلومات ابھی تک سامنے نہیں آ سکی ہیں۔
حملے کے بعد بیروت کے جنوبی مضافات میں شدید تباہی کا منظر دیکھنے میں آیا، جہاں کئی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔ جائے وقوعہ پر ہنگامی کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھی جو ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کی کوشش کر رہی تھی۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق، اموات کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے کیونکہ علاقے میں تباہ شدہ عمارتوں کے نیچے اب بھی متعدد لوگ پھنسے ہوئے ہو سکتے ہیں۔
حملے کے بعد خطے میں کشیدگی مزید بڑھنے کا امکان ہے، کیونکہ یہ حملہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جاری کشیدگی میں ایک نیا موڑ ہے۔ عالمی رہنما اس کشیدگی کو کم کرنے کے لیے سفارتی کوششیں کر سکتے ہیں، تاہم فی الحال کسی بھی بڑے ردِعمل یا مذاکرات کے امکانات کم دکھائی دیتے ہیں۔