غزہ جنگ، اسرائیل کو بڑے معاشی چیلنج کا سامنا
تل ابیب:غزہ کی پٹی میں جاری حالیہ جنگ نہ صرف اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازعے کو مزید بڑھا رہی ہے بلکہ اسرائیل کی معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔ یہ جنگ اسرائیل کی تاریخ کی سب سے طویل جنگوں میں سے ایک ہے، اور تقریباً ایک سال گزرنے کے باوجود اس کے خاتمے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔
جنگ شروع ہونے سے قبل اسرائیلی معیشت تیزی سے ترقی کی جانب گامزن تھی ۔ 2021 اور 2022 کے دوران اسرائیل کی جی ڈی پی میں بالترتیب 6.8 فیصد اور 4.8 فیصد اضافہ ہوا، جو مغربی ممالک سے کہیں زیادہ تھا۔ ٹیکنالوجی کے شعبے کی مضبوطی اور سرمایہ کاری نے اسرائیل کو عالمی سطح پر معاشی ترقی کے میدان میں آگے رکھا۔7 اکتوبر 2023 کو غزہ میں شروع ہونے والے حملوں کے بعد اسرائیلی معیشت کو شدید دھچکا لگا۔ رپورٹ کے مطابق، جنگ کے ابتدائی چند ہفتوں میں ہی اسرائیل کی جی ڈی پی میں 4.1 فیصد کمی آئی، جو کہ 2024 میں بھی جاری رہی۔ پہلی دو سہ ماہیوں میں مزید 1.1 فیصد اور 1.4 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ اس کے علاوہ، یکم ستمبر کو ہونے والی عام ہڑتال، چاہے وہ مختصر مدت کے لیے تھی، لیکن اس نے بھی معیشت کو مزید کمزور کر دیا۔
اس طویل جنگ نے اسرائیل کی مالیاتی پوزیشن کو مزید خراب کیا ہے۔ امریکہ کی جانب سے 14.5 ارب ڈالر کی فوجی امداد کے باوجود اسرائیلی حکومت کے جنگی اخراجات پورے نہیں ہو سکے۔ بنک آف اسرائیل نے پیش گوئی کی ہے کہ 2025 تک اس جنگ کی لاگت 67 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ اس بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے اسرائیل کو اپنے وسائل مختص کرنے کے حوالے سے مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے، جن میں معیشت کے مختلف شعبوں میں اخراجات کم کرنا یا قرضوں میں اضافہ شامل ہے۔
اسرائیل کی معاشی صورتحال کی خرابی کی وجہ سے بڑی بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے ملک کی درجہ بندی کم کر دی ہے۔ فچ ایجنسی نے اگست 2024 میں اسرائیل کے کریڈٹ سکور کو A+ سے A تک کم کر دیا، اس کی بڑی وجہ فوجی اخراجات میں اضافہ اور مالیاتی خسارے کا بڑھنا تھا۔ 2024 میں اسرائیل کا مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 7.8 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے، جو کہ 2023 میں 4.1 فیصد تھا۔
جنگ نے اسرائیلی معیشت کے مخصوص شعبوں پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ تعمیراتی شعبے میں جنگ کے پہلے دو مہینوں میں تقریباً ایک تہائی کمی آئی۔ زرعی شعبے کی پیداوار بھی نمایاں طور پر کم ہوئی، جس کی وجہ سے کسانوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، 2024 میں 60,000 سے زائد اسرائیلی کمپنیاں، عملے کی کمی، سپلائی چین کے مسائل اور کاروباری اعتماد کی کمی کی وجہ سے بند ہونے پر مجبور ہو سکتی ہیں۔
اگرچہ سیاحت اسرائیل کی معیشت کا ایک بڑا حصہ نہیں ہے، لیکن جنگ نے اس شعبے کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ جنگ کے آغاز کے بعد سے سیاحوں کی آمد میں ڈرامائی کمی آئی ہے، جس سے اس شعبے کی بحالی میں مزید تاخیر ہو سکتی ہے۔
بینک آف اسرائیل نے جولائی 2024 کی پیشن گوئی میں کہا ہے کہ 2024 کے لیے معیشت کی ترقی کی شرح 2.8 فیصد سے بھی کم ہو گئی ہے، جبکہ 2025 میں جنگ کے اثرات مزید بڑھنے کا امکان ہے۔ اسرائیل کو نہ صرف اپنی معیشت کو سنبھالنے کے لیے اندرونی مشکلات کا سامنا ہے بلکہ بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی کم ہو رہا ہے، جو اسرائیل کی مستقبل کی معاشی ترقی کو مزید متاثر کر سکتا ہے۔