ٹرینی ڈاکٹر کے قتل کے بعد مغربی بنگال میں سزائے موت کا قانون منظور
بھارت کی مغربی بنگال ریاست نے ایک نئے قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت ریپ کے مرتکب افراد کو سزائے موت دی جا سکے گی۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب ریاست کو ایک ٹرینی ڈاکٹر کے وحشیانہ ریپ اور قتل کے بعد عوامی احتجاج کا سامنا تھا۔ 9 اگست کو کولکتہ کے ایک سرکاری ہسپتال سے 31 سالہ ڈاکٹر کی خون آلود لاش ملنے کے بعد شہر بھر میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔یہ نیا قانون ریپ کے مجرموں کے لیے سزا کو کم از کم 10 سال سے بڑھا کر عمر قید یا سزائے موت تک کر دیتا ہے۔
اگرچہ یہ قانون ریاستی اسمبلی سے منظور ہو چکا ہے، مگر اسے ابھی صدر کی منظوری درکار ہے تاکہ یہ مکمل طور پر نافذ العمل ہو سکے۔مغربی بنگال کا یہ قانون علامتی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ بھارت کا ضابطہ فوجداری پورے ملک میں یکساں لاگو ہوتا ہے۔ تاہم، صدارتی منظوری کے بعد یہ قانون ریاست میں نافذ کیا جا سکے گا، جو کہ ایک تاریخی قدم ہو گا۔ڈاکٹر کے قتل کے بعد ملک بھر میں ڈاکٹروں کی ہڑتال اور احتجاجی مظاہروں نے زور پکڑا۔ ہزاروں عام شہریوں نے بھی اس احتجاج میں شرکت کی، جس نے ایک قومی تحریک کی شکل اختیار کر لی۔
احتجاج کے بعد مغربی بنگال میں مظاہرے سیاسی رنگ اختیار کر گئے، جہاں وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور ریاستی حکمران جماعت آل انڈیا ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ریپ اور قتل کے اس سانحے نے دہلی میں 2012 کے خوفناک اجتماعی ریپ اور قتل کی یادیں تازہ کر دی ہیں، جس نے بھارت میں خواتین کے خلاف تشدد کے مسئلے پر عالمی توجہ حاصل کی تھی۔ مغربی بنگال میں منظور ہونے والا نیا قانون اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ خواتین کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔