اسرائیل میں حکومت مخالف مظاہروں میں شدت، ملک گیر ہڑتال کا اعلان
مقبوضہ بیت المقدس: اسرائیل میں چھ یرغمالیوں کی لاشیں ملنے کے بعد ملک گیر احتجاج شروع ہوگیا ہے۔ مظاہروں کی شدت اتنی زیادہ ہے کہ حکومت کو تنقید کا سامنا ہے اور ملک کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین ہسٹاڈرٹ نے پیر کو ملک گیر ہڑتال کی کال دے دی ہے، جس سے اسرائیلی معیشت پر شدید اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے۔
اتوار کے روز جب چھ یرغمالیوں کی لاشیں ملیں، تو یروشلم اور تل ابیب سمیت کئی بڑے شہروں میں ہزاروں کی تعداد میں عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ مظاہرین نے نیتن یاہو حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور ان پر حماس کے ساتھ جاری جنگ بندی مذاکرات میں ناکامی کا الزام عائد کیا۔ تل ابیب کی ایالون ہائی وے پر مظاہرین نے رکاوٹیں کھڑی کر دیں جس کی وجہ سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو گیا اور گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔
یروشلم میں مظاہرین نے حکومت کے سامنے تین اہم مطالبات رکھے ہیں۔ فوری طور پر جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد، یرغمالیوں کی بحفاظت رہائی، اور نیتن یاہو کی قیادت میں موجود حکومت کی برطرفی۔
دوسری جانب، ہسٹاڈرٹ کے سربراہ آرنون بار ڈیوڈ نے کہا کہ ہمیں اپنی معیشت کو روکنا پڑے گا تاکہ حکومت ہماری بات سنے۔ پیر کو ہونے والی ہڑتال سے اسرائیلی معیشت کو مکمل طور پر مفلوج کر دیا جائے گا۔
ہسٹاڈرٹ کی ہڑتال کو بڑے پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہو رہی ہے، جس سے حکومت پر دباؤ مزید بڑھنے کا امکان ہے۔
یرغمالیوں کے خاندانوں کے فورم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ مزید چھ یرغمالیوں کی ہلاکت براہ راست نیتن یاہو کی حکومت کی ناکامی کا نتیجہ ہے جو حماس کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ان خاندانوں نے بین الاقوامی برادری سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھے اور اسرائیلی حکومت پر دباؤ ڈالے کہ وہ جنگ بندی معاہدے کو فوری طور پر مکمل کرے۔