مکہ کلاک ٹاور آسمانی بجلی کی زد میں، پھر بھی محفوظ حیرت انگیز معجزہ
مکہ مکرمہ کا مقدس شہر جہاں بیت اللّٰہ شریف موجود ہے، وہیں ایک اور عظیم الشان عمارت بھی ہے جو دنیا بھر کے مسلمانوں کی نگاہوں کا مرکز بنی ہوئی ہے: مکہ کلاک ٹاور، جو ابراج البیت کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ ٹاور نہ صرف اپنی بلندی اور خوبصورتی کے لیے مشہور ہے بلکہ اس کی ایک منفرد خصوصیت بھی ہے، جو اسے دنیا کی دیگر بلند عمارتوں سے ممتاز بناتی ہے۔
مکہ کلاک ٹاور کی تعمیر 2002ء میں شروع ہوئی اور 2012ء میں مکمل ہوئی۔ 601 میٹر بلند اس عمارت نے دنیا کی چھٹی بلند ترین عمارت ہونے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ یہ عمارت اپنی شاندار بلندی اور دلکش ڈیزائن کے ساتھ ساتھ جدید تعمیراتی تکنیکوں کا بھی منہ بولتا ثبوت ہے۔
بارشوں کے موسم میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ آسمانی بجلی مکہ کلاک ٹاور کے بلند ترین ہلال سے ٹکراتی ہے۔ یہ منظر نہایت دلکش اور حیرت انگیز ہوتا ہے اور سوشل میڈیا پر بھی تیزی سے وائرل ہوجاتا ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود کلاک ٹاور کو کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔
مکہ کلاک ٹاور کی حفاظت کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی اور خصوصی ڈیزائن اپنایا گیا ہے۔ اس عمارت میں 800 سے زائد فکسڈ راڈز نصب کیے گئے ہیں جو آسمانی بجلی کو اپنی طرف کھینچ کر اسے محفوظ طریقے سے زمین کی طرف منتقل کرتے ہیں۔ یہ راڈز خاص طور پر تانبے اور ایلومینیم جیسی دھاتوں سے بنائے گئے ہیں، جو بجلی کی تباہ کاریوں سے بچاؤ کے لیے بہترین مواد مانا جاتا ہے۔
کلاک ٹاور کے ہلال پر ایک خاص طویل راڈ نصب کیا گیا ہے، جو آسمانی بجلی کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اور فوری طور پر اسے زمین میں منتقل کردیتا ہے، تاکہ ٹاور یا اس کے اندر موجود کسی بھی حصے کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ اس ٹیکنالوجی نے نہ صرف کلاک ٹاور بلکہ اس کے اطراف میں موجود مسجد الحرام اور دیگر مقدس عمارتوں کو بھی آسمانی بجلی کے نقصانات سے محفوظ رکھا ہوا ہے۔
مکہ کلاک ٹاور کی یہ خاصیت نہ صرف اسے ایک عمارت کے طور پر منفرد بناتی ہے بلکہ یہ اس بات کی بھی علامت ہے کہ جدید ٹیکنالوجی اور فن تعمیر کے ذریعے ہم قدرتی آفات کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ یہ عمارت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ انسانی عقل اور کوشش سے ہم کس طرح قدرت کے چیلنجز کا سامنا کرسکتے ہیں اور اپنی حفاظت کو یقینی بنا سکتے ہیں۔
مکہ کلاک ٹاور کی بلندی، اس کا ہلال اور اس پر گرتی آسمانی بجلی مل کر ایک داستان بناتے ہیں، جو ہمیشہ کے لیے ہمارے دلوں میں محفوظ رہے گی۔ یہ عمارت نہ صرف فن تعمیر کی ایک مثال ہے بلکہ ایک مثالی حفاظتی نظام کا بھی مظہر ہے، جو مستقبل کے تعمیراتی منصوبوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوسکتا ہے۔