چیچنیا میں پیوٹن کی موجودگی، یوکرین کے خلاف جنگ کے لیے نئی حکمت عملی؟
گروزنی: روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے 13 سال بعد اچانک شمالی قفقاز کی جمہوریہ چیچنیا کا دورہ کیا۔ یہ غیر اعلانیہ دورہ ایسے وقت میں کیا گیا جب ماسکو دوسری جنگ عظیم کے بعد روس پر ہونے والے سب سے بڑے حملے کے بعد یوکرین کی افواج کو اپنے کرسک خطے سے پیچھے دھکیلنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
چیچنیا، جو کہ ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے اور روس کا حصہ ہے، ولادیمیر پیوٹن کا یہ دورہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ دورے کے دوران پیوٹن نے چیچن رہنما رمضان قادروف کے ہمراہ یوکرین کے خلاف لڑنے کے لیے تیار چیچن افواج اور رضاکاروں کا معائنہ کیا۔ رمضان قادروف نے اس موقع پر بتایا کہ جنگ کے آغاز سے اب تک چیچنیا نے یوکرین کے محاذ پر 47 ہزار سے زائد فوجی بھیجے ہیں، جن میں تقریباً 19 ہزار رضاکار بھی شامل ہیں۔
روس کی سرزمین پر یوکرینی افواج کے حملے نے پیوٹن اور روسی فوج کے لیے سنگین چیلنجز پیدا کیے ہیں۔ اس حملے کو روسی قیادت کے لیے شرمندگی کا باعث سمجھا جا رہا ہے۔ ایسے میں پیوٹن کا چیچنیا کا دورہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ روسی قیادت اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر یوکرین کے خلاف مزید مضبوطی سے لڑنے کی تیاری کر رہی ہے۔
رمضان قادروف نے پیوٹن کو بتایا کہ چیچن جنگجو روسی افواج کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر یوکرین کے خلاف جنگ میں شریک ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ چیچنیا کی فورسز نے محاذ پر اپنی ثابت قدمی اور عزم سے یوکرینی افواج کو کئی مقامات پر شکست سے دوچار کیا ہے۔
امریکہ نے یوکرین کے خلاف روسی حمایت کے تناظر میں رمضان قادروف پر 2020 اور 2022 میں پابندیاں عائد کی تھیں۔ ان پابندیوں کے باوجود، قادروف نے اپنی وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے روسی قیادت کے ساتھ کھڑا رہنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
ولادیمیر پیوٹن کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب روس اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر یوکرین کے خلاف جنگ کو مزید تیز کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ دورہ ایک اہم پیغام بھیجتا ہے کہ روس اور اس کے اتحادی ابھی تک اس جنگ میں پوری شدت سے شامل ہیں، اور وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
چیچنیا میں پیوٹن کے اس غیر اعلانیہ دورے کو روسی میڈیا میں بھی بھرپور کوریج دی جا رہی ہے، جسے ملک کے اندرونی اور بیرونی محاذوں پر روسی طاقت اور عزم کے اظہار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ پیوٹن کے اس دورے کا مقصد نہ صرف چیچنیا کے فوجیوں کی حوصلہ افزائی کرنا تھا بلکہ عالمی برادری کو یہ پیغام دینا بھی تھا کہ روس ابھی بھی اپنے اتحادیوں کے ساتھ کھڑا ہے اور یوکرین کے خلاف جنگ میں پوری قوت سے مصروف عمل ہے۔