پاکستان سے آصف مرچنٹ کے معاملے پر کوئی رابطہ نہیں,امریکی محکمہ خارجہ
واشنگٹن میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے وضاحت کی ہے کہ امریکی سیاست دانوں اور سرکاری اہلکاروں کی مبینہ قتل کی ایرانی سازش میں پاکستانی شہری آصف مرچنٹ کے شامل ہونے پر اسلام آباد کے ساتھ کوئی رسمی گفتگو نہیں ہوئی ہے۔
ایک عدالتی دستاویز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 46 سالہ آصف مرچنٹ نے 2020 میں ایران کے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ لیتے ہوئے امریکی سرزمین پر حملے کی منصوبہ بندی کی تھی، جن میں امریکی سیاستدان اور حکومتی اہلکار شامل تھے۔
استغاثہ نے الزام عائد کیا ہے کہ آصف مرچنٹ نے امریکا کے سفر سے قبل ایران میں قیام کیا اور نیویارک کی بروکلین فیڈرل کورٹ میں ان پر مقدمہ دائر ہے۔ ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ امریکا اپنے شہریوں کو ایران سے پیدا ہونے والے خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے پرعزم ہے، جب کہ اس معاملے پر مزید تفصیلات محکمہ انصاف کے حوالے کردی گئی ہیں، کیونکہ یہ ایک جاری قانونی عمل ہے۔
عدالتی دستاویزات کے مطابق، آصف مرچنٹ نے اپریل 2024 میں پاکستان سے امریکا آکر ایک ایسے شخص سے رابطہ کیا، جسے وہ مددگار سمجھتے تھے، مگر وہ شخص امریکی حکام کا مخبر بن گیا۔
آصف مرچنٹ نے جون میں ان انکشافات کے ساتھ نیویارک میں مخبر سے ملاقات کی اور بتایا کہ ان کے اہداف امریکا میں ہی موجود ہیں۔ امریکی خبر رساں ادارے (سی این این) کے مطابق سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس سازش کے ممکنہ ہدف تھے۔
دیگر دستاویزات سے انکشاف ہوا کہ آصف مرچنٹ کا تعلق کراچی سے تھا اور ایران میں رہنے والے ان کے اہل و عیال بھی ہیں۔ امریکی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کسی بھی ممکنہ حملے سے قبل ہی اس سازش کو ناکام بنا دیا اور آصف مرچنٹ کو نیویارک میں وفاقی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔