امریکی جج نے گوگل کے خلاف فیصلہ دے دیا
واشنگٹن:امریکا میں ایک جج نے فیصلہ سنایا ہے کہ ٹیکنالوجی کمپنی گوگل نے اپنے سرچ انجن کی غیر قانونی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے ہیں۔ یہ فیصلہ عدم اعتماد کے قوانین کی خلاف ورزی کے الزامات پر مبنی مقدمے میں سنایا گیا ہے۔
یو ایس ڈسٹرکٹ جج امیت مہتا نے اپنے 277 صفحات پر مشتمل فیصلے میں گوگل کو اینٹی ٹرسٹ قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا ہے۔ جج مہتا نے کہا کہ گوگل نے آن لائن سرچ میں اپنی اجارہ داری برقرار رکھنے کے لیے غیر قانونی اقدامات کیے، جن میں نئے موبائل فونز اور الیکٹرانک گیجٹس پر اپنے سرچ انجن کو ڈیفالٹ آپشن کے طور پر انسٹال کرنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کرنا شامل ہے۔
اس فیصلے کو غیرملکی میڈیا نے تاریخی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ بڑی ٹیک کمپنیوں کے کاروبار کرنے کے طریقہ کار کو بدل سکتا ہے۔ گوگل پر 2020 میں عدم اعتماد اور غیر قانونی اجارہ داری قائم کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
امریکی اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے اس فیصلے کو امریکی عوام کے لیے ایک بڑی جیت قرار دیا اور کہا کہ کوئی بھی کمپنی، چاہے کتنی ہی بڑی یا بااثر کیوں نہ ہو، قانون سے بالاتر نہیں ہے۔
گوگل کے عالمی امور کے صدر، کینٹ واکر، نے کہا کہ کمپنی اس فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ جج امیت مہتا نے گوگل کو انڈسٹری کا بہترین سرچ انجن قرار دیا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ فیصلہ کمپنی کے لیے چیلنجنگ ہوگا۔
یہ مقدمہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے دور میں دائر کیا گیا تھا اور اس کی سماعت گزشتہ سال ستمبر سے نومبر تک جاری رہی تھی۔ امریکی محکمہ انصاف نے گوگل کے خلاف اینٹی ٹرسٹ مقدمہ درج کیا تھا، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ گوگل نے اپنی برتری کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنے حریفوں کو غیر منصفانہ طور پر نقصان پہنچایا۔
تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ اس فیصلے کے نتیجے میں گوگل اور اس کی پیرنٹ کمپنی ایلفابیٹ کو کتنے جرمانے یا دیگر سزاؤں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جرمانے یا دیگر سزاؤں کا فیصلہ آئندہ سماعت میں کیا جائے گا۔