بنگلادیش میں 13 سال بعد جماعت اسلامی کا دفتر کھول دیا گیا،کارکن خوشی سے نہال
ڈھاکہ: بنگلادیش کی بڑی مذہبی اور سیاسی جماعت، جماعت اسلامی، کا دفتر 13 سال بعد دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔ یہ قدم ملک میں جاری طلبہ اور عوامی احتجاج کی شدت کے بعد اٹھایا گیا، جس نے بالآخر حسینہ واجد کی حکومت کو مستعفی ہونے اور ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا۔
بنگلادیش میں کوٹا سسٹم کے خلاف طلبہ کی تحریک نے گزشتہ ایک ماہ سے پورے ملک میں احتجاج کی لہر دوڑادی تھی۔ طلبہ اور عوام کا یہ احتجاج حسینہ واجد حکومت کے جابرانہ اور آمرانہ رویے کے باعث جلد ہی سول نافرمانی اور "حسینہ واجد ہٹاؤ” تحریک میں تبدیل ہوگیا۔
حسینہ واجد نے احتجاج کے آگے پسپا ہوکر ملک چھوڑ دیا۔ ان کے ایک بیان، جس میں مظاہرین کو دہشت گرد کہا گیا تھا، نے ان کے 16 سالہ اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔ مظاہرین نے ان کی رہائش گاہ پر دھاوا بول دیا تھا، جس کے بعد حالات مزید کشیدہ ہوگئے اور انہیں استعفیٰ دے کر بھارت فرار ہونا پڑا۔
بھارت نواز حسینہ واجد کے ملک سے بھاگنے کے بعد عوام نے جماعت اسلامی کے 13 سال سے بند دفاتر کو کھولنا شروع کر دیا۔ اس موقع پر کارکنان اور دیگر رہنما جمع ہوگئے۔ امیر جماعتِ اسلامی بنگلادیش، ڈاکٹر شفیق الرحمان نے سب کا خیرمقدم کیا اور تحریک کو سراہا۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق جماعت اسلامی کے رہنما، بیرسٹر احمد بن قاسم، کو بھی آٹھ سال بعد رہا کر دیا گیا ہے۔ بیرسٹر احمد کے بارے میں کسی کو زندہ ہونے کا یقین نہیں تھا اور ان کی نماز جنازہ بھی پڑھا دی گئی تھی۔ احمد بن قاسم، سزائے موت پانے والے بنگلادیش کے سب سے بڑے نجی بینک کے صدر، میر قاسم علی کے صاحبزادے ہیں۔
بنگلادیش کے صدر کے حکم پر اپوزیشن رہنما اور سابق وزیراعظم، خالدہ ضیاء، کو بھی رہا کر دیا گیا ہے۔ ان کی رہائی نے سیاسی میدان میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے اور یہ اشارہ مل رہا ہے کہ بنگلادیش میں سیاسی تبدیلیوں کا نیا دور شروع ہو چکا ہے۔
بنگلادیش کی سیاسی صورتحال میں یہ تبدیلیاں ایک نئے دور کی شروعات ہیں۔ عوامی احتجاج نے نہ صرف حکومت کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا بلکہ جماعت اسلامی جیسے سیاسی جماعتوں کو دوبارہ فعال ہونے کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اہم سیاسی قیدیوں کی رہائی نے ملک میں جمہوری عمل کی بحالی کی امیدیں بھی بڑھا دی ہیں۔
بنگلادیش کی موجودہ سیاسی صورتحال اور احتجاجی تحریکیں ملک میں جمہوریت کی بحالی اور عوامی حقوق کے لیے نئی راہیں کھول رہی ہیں۔ یہ وقت بتائے گا کہ آیا یہ تبدیلیاں ملک کے مستقبل کے لیے مثبت ثابت ہوں گی یا نہیں۔