طلبہ کے مطالبے پر محمد یونس نے عبوری حکومت کی قیادت کی حامی بھر لی
ڈھاکہ:بنگلہ دیش کے نوبیل انعام یافتہ ماہر معاشیات محمد یونس نے حالیہ احتجاجات کے بعد طلبہ کے مطالبے پر عبوری حکومت کی سربراہی کے لیے رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ انہوں نے ایک تحریری بیان میں کہا ہے کہ وہ طلبہ کے اعتماد کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں اور ان کی خواہش پر عبوری حکومت کی قیادت کرنے کے لیے تیار ہیں۔
محمد یونس، جو 84 سال کے ہیں، نے کہا کہ بنگلہ دیش میں آزادانہ انتخابات کی ضرورت ہے اور وہ اپنے ملک اور عوام کی بھلائی کے لیے عبوری حکومت کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پائیدار امن صرف آزادانہ انتخابات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
محمد یونس، جنہیں "غریب ترین لوگوں کے بینکر” کے نام سے جانا جاتا ہے، نے 2006 میں اپنے کام کے لیے نوبیل انعام جیتا تھا۔ ان کا مائیکرو فنانس کا ماڈل دیہی خواتین کو چھوٹے قرضے فراہم کرنے پر مبنی ہے تاکہ وہ کھیتی باڑی کے اوزار یا کاروباری آلات میں سرمایہ کاری کر سکیں اور اپنی آمدنی بڑھا سکیں۔
بنگلہ دیش میں حالیہ مظاہروں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب طلبہ نے حکومت کے خلاف احتجاج کیا اور وزیراعظم حسینہ واجد کے استعفے کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین نے سول نافرمانی کی تحریک چلائی جس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد جاں بحق ہوئے اور حسینہ واجد کو وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دینا پڑا۔
احتجاج کرنے والے طلبہ اور اپوزیشن جماعتوں نے محمد یونس سے مطالبہ کیا کہ وہ عبوری حکومت کی قیادت کریں تاکہ ملک میں شفاف اور آزادانہ انتخابات کا انعقاد ممکن ہو سکے۔ محمد یونس نے کہا کہ وہ سیاست سے دور رہنا چاہتے ہیں لیکن ملک کی بہتری کے لیے اگر ضرورت ہو تو وہ حکومت کی قیادت کرنے کو تیار ہیں۔
یہ پیش رفت بنگلہ دیش کے سیاسی منظرنامے میں ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہے جہاں عوام اور طلبہ کی طرف سے تبدیلی کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ محمد یونس کی قیادت میں عبوری حکومت کا قیام ملک میں امن و امان کی بحالی اور شفاف انتخابات کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔