خالدہ ضیا کی نظر بندی سے رہائی بنگلادیش میں سیاسی تبدیلیاں
بنگلادیش میں حالیہ دنوں میں اہم سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئیں جب وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے مستعفی ہونے کے بعد ملک چھوڑ کر بھارت کا رخ کیا۔ ان کے استعفے کے بعد بنگلا دیشی صدر محمد شہاب الدین نے ایک اہم فیصلہ کرتے ہوئے سابق وزیراعظم اور اپوزیشن رہنما خالدہ ضیا کی فوری رہائی کا حکم دے دیا ہے۔
بنگلادیش میں گزشتہ ماہ سے جاری سیاسی بحران اور احتجاجات نے حکومت کو غیر مستحکم کر دیا تھا۔ احتجاج کی بڑی وجہ 1971 کی جنگ لڑنے والوں کے بچوں کو سرکاری نوکریوں میں 30 فیصد کوٹہ دیے جانے کا معاملہ تھا۔ اس حوالے سے کئی روز تک شدید مظاہرے ہوئے جن میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ سپریم کورٹ نے کوٹہ سسٹم کو ختم کر دیا تھا مگر طلبہ نے اپنے ساتھیوں کو انصاف نہ ملنے تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔
ڈھاکا میں سول نافرمانی کی تحریک چلانے والے طلبہ نے وزیراعظم حسینہ واجد سے استعفے کا مطالبہ کیا اور کرفیو کے باوجود ڈھاکا کی جانب مارچ کا اعلان کیا۔ احتجاجات کے دوران ہونے والی جھڑپوں میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے جبکہ مجموعی طور پر 300 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
بنگلادیشی فوج نے شیخ حسینہ واجد کو مستعفی ہونے کے لیے 45 منٹ کی ڈیڈلائن دی تھی۔ انہوں نے اس ڈیڈلائن کے بعد استعفیٰ دے دیا اور بھارت چلی گئیں۔ ان کے استعفے کے بعد آرمی چیف نے ملک میں عبوری حکومت بنانے کا اعلان کیا۔
یہ بھی پڑھیے وزیراعظم مستعفی آرمی چیف کچھ دیر میں قوم سے خطاب کریں گے
صدر محمد شہاب الدین نے سابق وزیراعظم اور بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہ خالدہ ضیا کی فوری رہائی کا حکم جاری کیا ہے۔ 79 سالہ خالدہ ضیا دو مرتبہ بنگلادیش کی وزیراعظم رہ چکی ہیں اور 2020 میں 17 سال کی قید کی سزا سے رہائی کے بعد سے گھر میں نظر بندی کی زندگی گزار رہی تھیں۔ وہ گزشتہ کچھ عرصے سے ہسپتال میں داخل ہیں اور ذیابیطس، دل کی بیماریوں اور جگر کی سوزش کے عارضےکا شکار ہیں۔
حسینہ واجد کے مستعفی ہونے اور ملک چھوڑنے کی خبر پر ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور جشن منایا۔ لوگوں نے امید ظاہر کی کہ اب ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوگی اور جمہوریت کی بحالی کی جانب قدم بڑھائے جائیں گے۔
یہ تبدیلیاں بنگلا دیش کے مستقبل کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کر سکتی ہیں اور دیکھنا ہوگا کہ عبوری حکومت کس طرح سے ملک کو مستحکم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔