بنگلہ دیش کے شہر میگورا میں ایک آٹھ سالہ بچی کے ساتھ پیش آنے والے ہولناک واقعے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ معصوم بچی کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، جس کے بعد وہ کئی روز تک زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہی اور بالآخر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئی۔ اس واقعے نے ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی اور ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے لگے۔
یہ افسوسناک سانحہ پانچ مارچ کی رات اس وقت پیش آیا جب بچی اپنی بڑی بہن کے گھر گئی تھی۔ والدہ کی جانب سے درج کرائی گئی ایف آئی آر کے مطابق، زیادتی کا الزام بچی کی بہن کے اٹھارہ سالہ شوہر پر ہے، جسے پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے گرفتار کر لیا۔ مزید تحقیقات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ ملزم کے والدین اور بھائی نے جرم کو چھپانے میں مدد فراہم کی، جس پر انہیں بھی حراست میں لے لیا گیا۔
زیادتی کے بعد بچی کی حالت نہایت تشویشناک تھی اور اسے فوری طور پر میگورا کے مقامی اسپتال لے جایا گیا۔ بعد ازاں طبیعت بگڑنے پر آٹھ مارچ کو دارالحکومت ڈھاکہ کے کمبائنڈ ملٹری اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں ڈاکٹرز نے دو بار اس کی حالت سنبھالنے کی کوشش کی، مگر تیسرے مرحلے میں اس کا دل کام کرنا بند کر گیا اور وہ ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔ والدہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں امید تھی کہ ان کی بیٹی بچ جائے گی اور اگر وہ بچ جاتی تو کبھی بھی اسے اکیلے کہیں نہ جانے دیتیں۔
بچی کی موت کے بعد فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے اس کی میت میگورا پہنچائی گئی، جہاں عوام کا شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ مقامی اسٹیڈیم میں ہزاروں افراد نے نماز جنازہ میں شرکت کی، جبکہ دارالحکومت ڈھاکہ یونیورسٹی میں بھی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔ جنازے کے بعد طلبہ و طالبات نے احتجاجی ریلیاں نکالیں اور حکومت سے سخت ترین کارروائی کا مطالبہ کیا۔ میگورا صدر پولیس اسٹیشن کے انچارج نے بتایا کہ ہجوم انتہائی مشتعل تھا اور حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے پولیس کو سخت جدوجہد کرنا پڑی۔
پولیس نے مقدمے کو جلد از جلد منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے مکمل تیاری کر لی ہے۔ اگلے سات دنوں میں مقدمے کی سماعت شروع ہونے کا امکان ہے، جبکہ ڈی این اے رپورٹس پانچ دن میں متوقع ہیں۔ پولیس اب تک بارہ سے تیرہ افراد کے بیانات قلمبند کر چکی ہے، جن میں متاثرہ خاندان، ڈاکٹرز اور پڑوسی شامل ہیں۔
بنگلہ دیش میں دو ہزار بیس میں نافذ کیے گئے قانون کے تحت نابالغ بچوں کے ساتھ زیادتی کی سزا موت مقرر کی گئی ہے۔ یہ قانون اس وقت لایا گیا تھا جب ملک میں متعدد ہائی پروفائل جنسی زیادتی کے واقعات سامنے آئے، جن میں ایک خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا وحشیانہ کیس بھی شامل تھا۔ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ آٹھ سالوں میں بنگلہ دیش میں تین ہزار چار سو اڑتیس بچوں کے ساتھ زیادتی کے مقدمات درج کیے گئے، جبکہ بہت سے کیس رپورٹ بھی نہیں ہو پاتے۔ ان میں سے پانچ سو انتالیس بچے چھ سال سے کم عمر کے تھے جبکہ نو سو تینتیس کی عمریں سات سے بارہ سال کے درمیان تھیں۔ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ زیادہ تر واقعات میں بچوں کو ان کے جاننے والے افراد ہی جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں۔
اس دل دہلا دینے والے واقعے کے بعد عوام کا مطالبہ ہے کہ مجرموں کو جلد از جلد سزائے موت دی جائے اور عدالتوں میں فوری انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے تاکہ ایسے واقعات کا سد باب ممکن ہو سکے۔ عوامی دباؤ کے پیش نظر توقع ہے کہ حکومت جلد ہی سخت اقدامات کا اعلان کرے گی، تاہم یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ کیا یہ معاملہ بھی وقت کے ساتھ دب جائے گا، یا واقعی انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے؟