بھارتی ریاست اتراکھنڈ میں مسلم دشمنی پر مبنی بل کا نفاذ ہوگیا
بھارت:بھارتی ریاست اتراکھنڈ نے تمام مذاہب کے لیے یکساں خاندانی قوانین (یونیفارم سول کوڈ) نافذ کر دیے ہیں، جس کے تحت شادی، طلاق، وراثت اور تعددِ ازدواج سے متعلق تمام مذاہب کے لیے یکساں ضوابط طے کر دیے گئے ہیں۔ اس قانون کو وزیراعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کی حکومت نے "مذہبی ہم آہنگی” کا نام دیتے ہوئے نافذ کیا ہے، تاہم مسلم تنظیموں نے اسے "مذہبی آزادی پر حملہ” قرار دے دیا ہے۔
قانون کی اہم دفعات:
- شادی کی عمر: مردوں کے لیے کم از کم 21 سال، خواتین کے لیے 18 سال۔
- تعددِ ازدواج اور حلالہ پر پابندی: ایک سے زائد شادیوں اور حلالہ (طلاق کے بعد اسی شخص سے دوبارہ شادی کی شرط) پر مکمل پابندی۔
- شادی اور رہائشی رجسٹریشن: تمام شادیوں کا 60 دن کے اندر سرکاری رجسٹریشن لازمی، جبکہ بغیر شادی کے ساتھ رہنے والے جوڑوں کو بھی رجسٹر کروانا ہوگا۔
- طلاق کا حق: مرد اور عورت دونوں کو یکساں طور پر طلاق دینے کا اختیار۔
- وراثت میں مساوات: بیٹے اور بیٹی دونوں کو والدین کی جائیداد میں برابر کا حصہ دیا جائے گا۔
مذہبی رسومات اور قانونی پابندیاں:
نئے قانون کے مطابق شادیاں اپنے مذہبی روایات کے مطابق کی جا سکتی ہیں، لیکن ہر صورت میں اس کا سرکاری اندراج ضروری ہے۔ غیر رجسٹرڈ شادیوں یا رہائشی تعلقات پر جرمانے یا سزا کا اطلاق ہوگا۔ علاوہ ازیں، ایک مرد یا عورت صرف ایک ہی ساتھی کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔
سیاسی تناظر اور مخالتیں:
یہ قانون بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے "ایک ملک، ایک قانون” کے وعدے کا پہلا عملی اظہار ہے۔ تاہم، مسلم رہنما اسے "مسلم پرسنل لاء میں مداخلت” قرار دے رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ قانون اسلامی تعلیمات (جیسے تعددِ ازدواج اور وراثت کے احکامات) کے منافی ہے۔ مسلم تنظیمیں اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کر چکی ہیں۔
وراثت میں تاریخی تبدیلی:
نئے قانون کے تحت وراثت کے معاملات میں خواتین کو پہلی بار مردوں کے برابر حقوق دیے گئے ہیں۔ اب بیٹیاں بھی والدین کی جائیداد میں بیٹوں کے برابر حصہ کی حق دار ہوں گی، جو روایتی اسلامی قانون سے ہٹ کر ہے۔
عوامی ردعمل:
اتراکھنڈ کے حلقوں میں اس قانون کو لے کر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ قدم خواتین کو بااختیار بنانے کی جانب اہم پیش رفت ہے، جبکہ دوسری طرف مسلم برادری اسے اپنے مذہبی تشخص پر حملہ سمجھ رہی ہے۔
بھارت کی تاریخ میں پہلی بار کسی ریاست نے مذہبی قوانین کی جگہ یکساں سول کوڈ نافذ کیا ہے۔ دوسری ریاستوں میں بھی اسی طرز کے قوانین متعارف کرانے کی توقع کی جا رہی ہے۔