ٹک ٹاک پر مٹی کھانے کا نیا وائرل ٹرینڈ، ماہرین صحت کو تشویش
ٹک ٹاک پر حالیہ دنوں میں ایک حیران کن اور غیر معمولی رجحان سامنے آیا ہے جس نے صحت و تندرستی کے ماہرین کو چونکا دیا ہے۔ یہ رجحان صارفین کی جانب سے مٹی کھانے کے عمل کو فروغ دیتا نظر آ رہا ہے، اور اس عجیب و غریب عمل کو ‘کرنچرز’ کے نام سے مشہور کیا جا رہا ہے۔ مٹی کھانے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس سے مختلف طبی مسائل کا علاج ممکن ہے، خاص طور پر آنتوں کی صحت اور نظام ہاضمہ میں بہتری لانے کے لیے۔
اس غیر معمولی ٹرینڈ کو آگے بڑھانے میں اسٹیفنی ایڈلر کا کلیدی کردار رہا ہے، جو کہ فرٹیلیٹی اور ہارمون کی کوچ ہیں۔ وہ اپنے فالوورز کو مٹی کے ممکنہ فوائد کے بارے میں بتاتی رہتی ہیں اور مٹی کھانے کے فائدے گنواتی ہیں۔ ان کے بقول، مٹی میں صحت بخش مائیکروجثوم پائے جاتے ہیں جو آنتوں کی صحت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
اسٹیفنی کی ایک ویڈیو، جسے لاکھوں لوگوں نے دیکھا، میں انہوں نے کہا اگر آپ اپنے بچے کی یا اپنی آنتوں کی صحت کو بہتر بنانا چاہتے ہیں، تو ایک چائے کا چمچ نامیاتی بائیو ڈائنامک مٹی نوش کریں، اس میں انسانوں سے زیادہ صحت بخش مائکروجراثیم ہوتے ہیں۔
اسٹیفنی ایڈلر کی ویڈیوز کے بعد مٹی کھانے کا رجحان مزید تیزی سے پھیلنے لگا اور صارفین نے اسے صحت کے مختلف مسائل کے حل کے طور پر اپنانا شروع کیا۔ کچھ لوگوں نے اس کے بارے میں اپنے تجربات شیئر کیے، جبکہ دیگر نے اس رجحان کو نقصان دہ قرار دیا۔
دوسری جانب، اس رجحان کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ مٹی کھانا نہ صرف غیر محفوظ ہے بلکہ اس کے سنگین طبی نتائج بھی ہو سکتے ہیں۔ مٹی میں موجود کیمیکلز اور زہریلے مادے جسم کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، اور یہ عمل آنتوں اور نظام ہاضمہ کی خرابیوں کا باعث بن سکتا ہے۔
کھانے کے قابل مٹی اور اس سے تیار کردہ مصنوعات اب ایمیزون اور ایٹسی جیسے ای کامرس پلیٹ فارمز پر بھی فروخت ہو رہی ہیں۔ ان مٹی کی مصنوعات کی قیمت 900 سے 2,200 روپے کے درمیان ہوتی ہے، اور صارفین انہیں صحت بخش اجزاء کے طور پر خریدنے میں دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں۔
طبی ماہرین نے اس نئے ٹرینڈ کو انتہائی خطرناک قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مٹی کھانے سے صحت کے فوائد کے بجائے مختلف بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔ ڈاکٹروں نے عوام کو مشورہ دیا ہے کہ وہ انٹرنیٹ پر موجود ہر دعویٰ پر اعتماد نہ کریں اور کسی بھی صحت بخش عمل کو اپنانے سے پہلے ماہرین سے مشورہ کریں۔