سائنس دان طویل عرصے سے خوابوں کی حقیقت اور ان کے پس پردہ عوامل کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق، نیند کے دوران شعور کے سوتے ہی لاشعور جاگ جاتا ہے اور دبے ہوئے خیالات، جذبات یا نامکمل خواہشات منظرعام پر آ جاتی ہیں۔ یہ خیالات خواب کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں، جن میں اکثر مناظر الجھے ہوئے اور بے ترتیب ہوتے ہیں۔
لاشعور میں ایک قدرتی "سنسر” موجود ہوتا ہے جو خوابوں میں زیادہ خوفناک یا غیر اخلاقی مناظر کو اشاروں میں تبدیل کر دیتا ہے، لیکن اگر یہ سنسر غیرفعال ہو جائے تو خواب ہیجان خیز اور پریشان کن ہو سکتے ہیں۔
کچھ لوگ خوابوں کو مستقبل کی پیش گوئی سے تعبیر کرتے ہیں، جبکہ دیگر انہیں ماضی کی یادوں اور تجربات سے جوڑتے ہیں۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک انسان اوسطاً آٹھ گھنٹے کی نیند میں دو گھنٹے خواب دیکھتا ہے۔ یہ وقت "ریم نیند” کے دوران ہوتا ہے، جو ہر ڈیڑھ گھنٹے بعد تقریباً بیس منٹ کے لیے آتی ہے۔ اگر خواب کے دوران آنکھ کھل جائے تو وہ خواب یاد رہتا ہے، ورنہ بھلا دیا جاتا ہے۔
دن بھر کی سوچ یا پریشانی خوابوں پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ مثال کے طور پر، سرجری سے پہلے مریضوں کو مختلف خواب آتے ہیں، لیکن کامیاب سرجری کے بعد ان کے خواب معمول پر آ جاتے ہیں۔
خوابوں کی چار اقسام سمجھی جاتی ہیں:
- بے معنی خواب: یہ لاشعور کی لہریں ہوتی ہیں جو شعور سے ٹکرا کر خواب تخلیق کرتی ہیں۔
- ہدایتی خواب: ایسے خواب اہم معاملات یا خبردار کرنے کا اشارہ دیتے ہیں۔
- تخلیقی خواب: یہ خواب تخلیقی حل یا نئے خیالات فراہم کرتے ہیں، جیسا کہ انسولین اور پنسلین جیسی ایجادات میں دیکھا گیا۔
- پیش گوئی کرنے والے خواب: روحانی طور پر مضبوط افراد کو نظر آنے والے یہ خواب مستقبل کی جھلک دیتے ہیں، جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کا ذکر قرآن پاک میں آیا۔