سائنس دانوں کا معدومیت کے خطرے سے دوچار جانوروں کو چاند پر بھیجنے کا منصوبہ
واشنگٹن ڈی سی: سائنس دانوں نے ایک انوکھے اور جدید منصوبے کا انکشاف کیا ہے جس کے تحت معدومیت کے خطرے سے دوچار جانوروں کے نمونے چاند پر محفوظ کیے جائیں گے۔ اس منصوبے کا مقصد زمین پر موجود حیاتیاتی تنوع کو محفوظ کرنا اور مستقبل میں معدومیت کے خطرے سے دوچار جانوروں کو بچانے کے لیے ایک محفوظ جگہ فراہم کرنا ہے۔
سائنس دانوں کے مطابق چاند پر ایک اسٹوریج فیسلیٹی قائم کی جائے گی جو کہ زمین پر معدومیت کے خطرے سے دوچار جانوروں کے نمونے محفوظ کرنے میں مدد دے گی۔ اس منصوبے کے تحت ان جانوروں کے نمونوں کو ‘کرایو پریزروڈ’ کیا جائے گا، جس کا مطلب ہے کہ خلیات، بافت یا دیگر حیاتیات کو انتہائی کم درجہ حرارت پر ٹھنڈا کر کے محفوظ کیا جائے گا۔
کرایو پریزرویشن ایک جدید ٹیکنالوجی ہے جس کے ذریعے حیاتیاتی نمونوں کو منفی 196 ڈگری سیلسیئس پر محفوظ کیا جاتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے حیاتیاتی نمونے طویل مدت تک خراب ہونے سے بچائے جا سکتے ہیں۔ چاند کی فیسلیٹی مستقل طور پر سائے میں ہوگی، جس کی وجہ سے وہاں کا درجہ حرارت انتہائی کم ہوگا اور یہ ایک قدرتی فریج کی طرح کام کرے گی۔
یہ منصوبہ میری ہیجڈورن کی رہنمائی میں کام کرنے والی ایک ٹیم نے پیش کیا ہے۔ ان کے مطابق چاند پر قائم کی جانے والی یہ فیسلیٹی حیاتیاتی نمونوں کو محفوظ رکھنے کا ایک انقلابی طریقہ ہوگا جس کا دنیا میں ترتیب دیا جانا ممکن نہیں۔ اس فیسلیٹی میں جانوروں کے نمونے طویل مدت تک محفوظ رہیں گے اور مستقبل میں ان جانوروں کی بقا کے لیے استعمال کیے جا سکیں گے۔
اس منصوبے کے تحت زمین پر موجود معدومیت کے خطرے سے دوچار جانوروں کو محفوظ رکھنے کا ایک نیا طریقہ سامنے آئے گا۔ چاند کی فیسلیٹی کے ذریعے ہمیں جانوروں کے طویل مدتی ریکارڈ رکھنے کا موقع ملے گا اور اس طرح ان کی بقا کے لیے ایک نئی امید پیدا ہوگی۔ یہ فیسلیٹی زمین پر درپیش مختلف خطرات، جیسے کہ موسمیاتی تبدیلی، جنگلات کی کٹائی، اور دیگر ماحولیاتی مسائل سے بچا کر ان حیاتیاتی نمونوں کو محفوظ رکھے گی۔
سائنس دانوں کا یہ منصوبہ معدومیت کے خطرے سے دوچار جانوروں کی بقا کے لیے ایک اہم قدم ہے۔ چاند پر قائم کی جانے والی فیسلیٹی نہ صرف حیاتیاتی تنوع کو محفوظ رکھے گی بلکہ مستقبل میں ان جانوروں کی بقا کے لیے نئے راستے بھی ہموار کرے گی۔ یہ منصوبہ دنیا بھر کے سائنس دانوں اور ماحولیاتی ماہرین کے لیے ایک مثال بنے گا اور حیاتیاتی تنوع کو محفوظ رکھنے کی کوششوں میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔