سائنسدانوں کا بجلی ذخیرہ کرنے کا نیا اور انوکھا تصور
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں اس وقت کے بجلی بل ہر کسی کے لئے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ کسی بھی گھر میں راشن کے بل سے ڈبل پیسے بجلی کے بلوں کی نذر ہو جاتا ہے۔
ایسے گھٹن کے ماحول میں سائنس دانوں نے توانائی ذخیرہ کرنے کا ایک انوکھا تصور پیش کیا ہے جو بلند و بالا عمارتوں کو بڑی بیٹریوں میں تبدیل کرسکتا ہے، اس جدت سے شہروں میں توانائی کے معیار کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
جرنل انرجی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں سائنس دانوں نے کششِ ثقل پر مبنی ایک عمدہ خیال پیش کیا ہے جس کے مطابق بلند و بالا عمارتوں کو توانائی ذخیرہ کرنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
بین الاقوامی ادارہ اپلائیڈ سسٹمز انیلیسز کے محققین کے مطابق لمبی اور بڑی عمارتوں میں لفٹ پہلے ہی موجود ہوتی ہے اس لیے اس منصوبے کے لئے کسی اضافی سرمایہ کاری یا جگہ کے مختص کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس خیال کے مطابق لِفٹ انرجی اسٹوریج ٹیکنالوجی (Lest) کے ذریعے گیلی ریت کے کنٹینروں کو یا دوسری زیادہ کثافت والی اشیاء کو اٹھا کر توانائی کو ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔
Lest ٹیکنالوجی کے ذریعے ذخیرے کی دو جگہوں کو جوڑا جاتا ہے ، ایک عمارت کے سب نچلے حصے میں اور دوسرا حصہ اسی عمارت میں سب سے اوپر بنایا گیا تھا۔
عمارتوں میں نصب شدہ لفٹ جب نیچے سے اوپر جاتی ہیں تو توانائی کو ذخیرہ کرنے والے کنٹینرز کے اوپر اٹھنے کے باعث ان کنٹینرز میں مخفی توانائی کے طور پر محفوظ ہوجاتی ہے۔
اس خیال کے مطابق جب عمارت میں توانائی کی طلب کم ہو گی تو روبوٹس لفٹ میں زیادہ وزن رکھیں گے اور عمارت کے اوپری حصے میں توانائی ذخیرہ کر لی جائے گی۔
کنٹینرز کو لفٹ میں لیجانے اور تارنے کا عمل خود کار ٹریلر نے انجام دیا ،جب توانائی کی طلب بڑھتی تو وزن کو لفٹ میں واپس رکھ کر نیچے بھیج دیا جاتا تاکہ مزید انرجی بنے۔