عدالت عظمیٰ نے ملزم اسحاق کی درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے ایس پی سپریم کورٹ کو حکم دیا کہ وہ ملزم کو گرفتار کر کے جیل حکام کے حوالے کر دیں۔ اس کیس کی سماعت جسٹس جمال خان مندوخیل کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ملک میں تین وزرائے اعظم مارے گئے، مگر ان کے مقدمات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ انہوں نے بلوچستان میں سینیئر ترین جج کی ہلاکت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں بھی کچھ نہیں کیا گیا، اور اس معاملے میں کچھ کرنے کی خواہش نہیں دکھائی گئی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سندھ اور پنجاب میں تفتیش بہت کمزور ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ جب تک ریاستی ادارے سیاسی معاملات میں ملوث رہیں گے، ملک کی حالت یہی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ آئین کی عملداری ہوتی تو یہ حالات نہ ہوتے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عوام کو اداروں پر اعتماد نہیں رہا، اور لوگ چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ ہی تمام معاملات حل کرے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ریاستی ادارے سچ بولتے، تو کئی سالوں بعد وزیراعظم کے قتل کا اعتراف نہ کیا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے قتل سے بڑا جرم کچھ نہیں ہو سکتا اور اس میں ملوث افراد کو سزا دینی چاہیے تھی۔
جسٹس شہزاد ملک نے کہا کہ اگر ملک کے وزیراعظم کا یہ حال ہو تو عام لوگوں کا کیا حال ہوگا؟ ایک دن وزیراعظم ہاؤس میں ہوتا ہے، اور دوسرے دن جیل میں، کسی کو نہیں پتا کہ کس دن وزیراعظم بننا ہے یا نہیں۔
واضح رہے کہ ملزم اسحاق پہلے بھی ضمانت حاصل کرنے کے بعد فرار ہو چکا تھا۔