اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کو بری کر دیا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بینچ نے العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف نواز شریف کی اپیل پر سماعت کی اور فیصلہ محفوظ کیا۔
تاہم بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے مختصر سا فیصلہ سناتے ہوئے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل منظور کرتے ہوئے انہیں کیس میں بری کر دیا۔ یاد رہے کہ 6 جولائی 2018 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو 11 سال قید کی سز اسنائی تھی۔
دوران سماعت نیب پراسیکیوٹر نے العزیزیہ ریفرنس کو دوبارہ احتساب عدالت بھیجنے کی استدعا بھی کی اور کہا کہ العزیزیہ ریفرنس کا احتساب عدالت کا یہ فیصلہ متعصبانہ ہے، جج سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے اور اُس کے نوکری سے برطرف ہونے کے بعد اِس فیصلے کو درست نہیں کہا جا سکتا۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ ’العزیزیہ اور ہل میٹل، دو پرائم الزامات ہیں، یہ بتائیے کہ العزیزیہ کب لگی؟ کیسے لگی؟ آپ پراسیکیوٹر تھے، بتائیں آپ کے پاس کیا شواہد تھے؟ آپ بتائیں کہ آپ نے کس بنیاد پر بار ثبوت ملزم پر منتقل کیا؟ قانون کو چھوڑیں، قانون ہم نے پڑھے ہوئے ہیں، آپ سیدھا مدعے پر آئیں، کوئی ریکارڈ پر ثبوت ہوگا؟ کوئی گواہ موجود ہوگا؟ زرا نشاندہی کریں، ثبوت میں دستاویز ان کی اپنی ہے، نیب پراسیکیوٹر یہ کس کے حوالے سے دستاویز ہے؟