اسلام آباد:سابق وزیرِاعظم عمران خان نے احتساب عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ انہیں اور ان کے خاندان کے افراد کو سیاست میں حصہ لینے سے روکنے اور دباؤ ڈالنے کے لیے جھوٹے مقدمات اور سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت نے سیاسی حریفوں کے لیے چیلنج پیدا کیا اور ان کی حکومت کا خاتمہ کیا، جس کے بعد سیاسی انتقام کا سلسلہ شروع ہوا۔
عمران خان کے مطابق، 10 اپریل 2022 کو حکومت کی تبدیلی کے بعد اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مبینہ طور پر امریکی سازش کے تحت اعلیٰ عدالتوں، سیاستدانوں، بیوروکریٹس، اور دیگر اداروں کو استعمال کرتے ہوئے "لندن پلان” کے تحت کام کیا، جو عوامی خواہشات کے خلاف تھا۔
انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ ان کی مقبولیت سے خوفزدہ ہو کر ان کے خلاف مقدمات درج کرنے میں مصروف رہی، ان کے خاندان اور پارٹی کارکنان کو دھمکایا، اغوا کیا اور جیلوں میں ڈال کر ان پر غیر انسانی تشدد کیا گیا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ 9 مئی 2023 کو ان کی جماعت کو کچلنے کے لیے فالس فلیگ آپریشن کیا گیا، جس کے بعد پارٹی ارکان پر دباؤ ڈالا گیا اور خواتین کارکنان کو گھروں سے اٹھا کر جیلوں میں ڈالا گیا۔
عمران خان نے القادر ٹرسٹ کیس کو سیاسی انتقام کی ایک کلاسیکی مثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے میں کوئی مالی بے ضابطگی یا ذاتی فائدہ نہیں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ نیب ٹیم نے اس منصوبے کا معائنہ کیا اور اسے طلبہ کے لیے ایک فعال ادارہ پایا۔ انہوں نے شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہ سماجی کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نیب حکام نے ان اور ان کی اہلیہ کے خلاف جلد بازی میں کارروائی کی، جبکہ پراسیکیوشن ان کے خلاف جرم ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے۔ عمران خان نے توشہ خانہ اور سائفر کیسز سمیت دیگر مقدمات کو بھی سیاسی انتقام قرار دیا اور کہا کہ ان کی جماعت کو نشانہ بنایا گیا تاکہ ان کی سیاست کو ختم کیا جا سکے۔
عمران خان نے 9 مئی کے بعد پارٹی ارکان پر درج مقدمات اور پرویز خٹک کی مبینہ ملی بھگت کا بھی ذکر کیا، جس میں ان کے مطابق پرویز خٹک نے جھوٹے بیانات دے کر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساز باز کی۔
ان کا کہنا تھا کہ القادر یونیورسٹی ٹرسٹ ایک فلاحی منصوبہ ہے جو دور دراز علاقوں کے عوام کے لیے قائم کیا گیا ہے اور اس سے کسی کو ذاتی مالی فائدہ نہیں ہوا۔