بلال پاشا جنوبی پنجاب کے ایک پسماندہ علاقہ میں پیدا ہوا۔ والد دیہاڑی دار مزدور تھے۔ مالی حالات اچھے نہ ہونے کی وجہ سے مسجد میں ہی قائم مکتب سے پرائمری پاس کی۔ جنوبی پنجاب کی پسماندگی کا عالم سب پر عیاں ہے لہذا بلال پاشا نے بھی چھٹی جماعت سے اے بی سی پڑھنا شروع کی۔ انٹر میڈیٹ ایمرسن کالج ملتان اور بیچلر زرعی یو یونیورسٹی فیصل آباد سے کیا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ مسجد سے پانچ جماعتیں کرنے والا بچہ کل کو مقابلے کا امتحان پاس کرکے سی ایس پی بن جائے گا۔
بلال باشا نے کیریئر کا آغاز ایک پرائیویٹ نوکری سے کیا۔ لیکن والد کی خواہش پر گورنمنٹ سروس میں آیا اور پولیس میں سب انسپکٹر بھرتی ہوگیا۔ بعد ازاں مختلف سرکاری اداروں میں سولہویں اور سترہویں سکیل کی ملازمت کرتے ہوئے 2018ء میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
بلال پاشا نے اپنے بیک گرائونڈ کو چھپانے کی بجائے اپنے سفید داڑھی والے مزدور باپ کے ساتھ کھڑے ہوکر انٹرویو دیا اور پاکستان کے ان نوجوانوں میں امید کی شمع جلائی جو سی ایس ایس پاس کرنے کو صرف ایلیٹ کلاس سے منسوب کرتے تھے۔ سلسلہ چل نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں نوجوان سی ایس ایس کے خواب آنکھوں میں سجائے اس سفر پر گامزن ہونے لگے۔
لیکن عرفان خان نے کیا زبردست جملہ بولا تھا کہ جب ہم جیسوں کے دن آتے ہیں موت بیچ میں ٹپک پڑتی ہے۔ بلال پاشا کی زندگی کی شروعات ہوئی تھی اور موت نے ان دبوچ لیا۔ بلال کی موت کی وجہ بس ایک ہی تھی۔ سول سروس میں ملنے والا ڈپریشن وہ جس سے بھی بات کرتا یہی کہتا کہ وہ یا تو نوکری چھوڑ دے گا یا خودکشی کرلے گا۔
بلال کی موت سے دو باتیں عیاں ہیں، ایک ڈپریشن جان لیوا بیماری ہے۔ یہ ارب پتی باپ طارق جمیل کے ارب پتی بیٹے کو بھی دبوچ لیتی ہے اور یہ ایک مزدور باپ کے افسر بیٹے بلال پاشا کو بھی نہیں چھوڑتی۔ دوسرا ہمیں اپنے خوابوں کے پیچھے اتنا بھی نہیں بھاگنا چاہئے۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے ” جس کی طلب میں تڑپ رہے ہو، وہ مل بھی بھی گیا تو کیا کرو گے”۔ یا پھر چارلس بکوسکی سے نے کہا تھا ” ڈھونڈو اسے جس سے تم محبت کرتے ہو تاکہ وہ تمہیں مارسکے۔ بلال کو بھی سی ایس ایس کرنے نے مار دیا۔ لہذا سی ایس ایس ایسی چیز نہیں ہے جس کی خاطر جان سے بھی ہاتھ دھویا جائے۔ ہر سال 17 فیصد بیوروکریٹ اپنی نیلی بتی اور سبز نمبر پلیٹ کو اللہ حافظ کہہ کراستعفے دے دیتے ہیں۔ بلال بھی یہی کہتا تھا ” یہ لوگ بتی اور سبز نمبر پلیٹ دیکھتے ہیں لیکن میرے اندر نہیں دیکھتے۔
بلال کی موت کی رات بلال کے باریش والد کے لئے بہت بھاری گزری ہوگی۔ اس دن وہ اپنے ناتواں ہاتھوں سے اپنے لخت جگر کے سونے جیسے جسم کو سپرد خاک کیا۔ وہ رات بہت طویل تھی۔ بہت گھٹن اور ہر طرف چیخ و پکار ہوگی۔ بلال کی میت کو روکا جائے گا۔ لیکن جانے والے کو بھلا کوئی روک پایا ہے؟ اس روز رات تو ہوگئی لیکن بلال کے باپ کیلئے اب کبھی سحر نہیں ہوگی۔ جب صبح کا سورج طلوع ہواتو اس کا باریش باب گلیوں گلیوں صدائیں لگاتا ہوا اسی مسجد کے صحن میں جا پہنچا جہاں سے بلال نے اپنی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ لیکن اب کی بار وہ میسر نہیں تھا۔ اب کی بار مسجد کے درودیوار سے بس آہ و بکا سنائی دے رہی تھی۔ ہر طرف وحشت نظر آرہی تھی۔ لیکن بلال کہیں نظر نہیں آیا۔ وہ اس نیلی بتی اور سبز نمبر پلیٹ اور اس سماج کے خودساختہ معیار سے بہت دور جاچکا ہے۔ اب کی بار وہ لوٹ کے نہیں آئے گا۔
بیٹر کے زوردار شارٹ نےایمپائر کے منہ کا حلیہ ہی بگاڑ دیا جس کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل…
پاکستان تحریک انصاف کا 24 نومبر کو ہونے والا احتجاج رکوانے کے لیے پس پردہ ملاقاتیں جاری ہیں۔سینیئر صحافی انصار…
سابق وزیراعظم عمران خان کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور کر لی گئی۔آج اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس…
معروف خاتون نجومی باباوانگا نے ۲۰۲۵ سے متعلق خطرناک پیشگوئیاں کر دیں۔۱۹۱۱ میں پیدا ہونے والی بابا وانگا نے مرنے…
علیمہ خان نے اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)…
چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) حفیظ الرحمان نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے واضح…