اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ کے ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ یہ سماعت احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے کی، اور عمران خان کو کمرہ عدالت میں پیش کیا گیا۔ وکیل عثمان گل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ آ چکا ہے، اس لیے پہلے بریت کی درخواستوں پر فیصلہ کیا جائے۔ دوسری جانب، فیصل چودھری نے کہا کہ پراسیکیوشن شواہد ریکارڈ کروا چکی ہے، لہذا اب بریت کی درخواستوں پر فیصلہ کیا جانا چاہیے۔
پراسیکیوشن ٹیم کی جانب سے ملزمان کے 342 کے بیان ریکارڈ کرانے کی درخواست کی گئی، جس پر عدالت نے حکم دیا کہ ملزمان 19 نومبر تک سوال نامے کے جواب جمع کروا دیں۔ عدالت نے اس دوران بشریٰ بی بی کو کل ہر صورت حاضری یقینی بنانے کی ہدایت بھی کی۔
یاد رہے کہ 342 کا بیان ایک قانونی مرحلہ ہے جس میں ملزمان کو اپنے دفاع میں سوالات کے جوابات دینے کا موقع دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد عدالت فیصلہ کرتی ہے کہ آیا ان پر فرد جرم عائد کی جائے یا نہیں
بعد ازاں، اڈیالہ جیل میں توشہ خانہ ٹو کیس کی سماعت بھی ہوئی جس میں سپیشل جج سینٹرل شاہ رخ ارجمند نے کیس کی سماعت کی۔ عمران خان کو دوبارہ کمرہ عدالت میں پیش کیا گیا، اور میڈیکل بنیادوں پر بشریٰ بی بی کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی۔ تاہم، پراسیکیوشن ٹیم نے بشریٰ بی بی کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ میڈیکل رپورٹ پر نہ تو سیریل نمبر ہے اور نہ ہی دستخط موجود ہیں۔
سپیشل پراسیکیوٹر نے عدالت میں کہا کہ وکلا صفائی فرد جرم عائد کرنے میں تاخیر کے لیے تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں، اور میڈیکل رپورٹ کے ساتھ ڈاکٹر کی معائنہ رپورٹ بھی موجود نہیں۔ وکیل دفاع نے کہا کہ اگر عدالت چاہے تو میڈیکل کی تصدیق کروا سکتی ہے۔ اس کے باوجود، بشریٰ بی بی کی عدم دستیابی کی وجہ سے توشہ خانہ ٹو کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی پر فرد جرم عائد نہیں کی جا سکی۔