لاہور(ویب ڈیسک) صوبائی دارلحکومت میں ایک ہفتے کے دوران سموگ کی سطح اپنی بلند ترین سطح پر رہنے کے بعد ایک نیا لیول عبورکرگئی۔ ایئر کوالٹی انڈیکس 700 سے اوپر جانے کے بعد لوگوں نے گھبرانا شروع کر دیا ہے۔
لاہور کے مختلف علاقوں میں مسلسل چوتھے روز ایئر کوالٹی انڈیکس 500 سے اوپر ریکارڈ کیا گیا۔ رات 12 بجے کے بعد یہ 700 تک پہنچ گیا۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق، جمعرات کو ماڈل ٹاؤن کو یہ لیول 746 جبکہ بدھ کو 532 ریکارڈ کیا گیا۔
جمعرات کو جاری کردہ ایئر کوالٹی انڈیکس کے اعداد و شمار کے مطابق لاہور کو عالمی سطح پر سب سے زیادہ آلودہ شہر قرار دیا گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سموگ فضائی آلودگی کی وجہ سے ہوتی ہے جو نہ صرف حادثات کا باعث بنتی ہے بلکہ صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہے، اس کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا اور فیس ماسک کا استعمال ضروری ہے۔ صرف بارش سموگ کو کم کر سکتی ہے۔
آلودگی کا معاملہ عدالتوں میں پہنچ چکا ہے۔
جمعہ کو لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس شاہد کریم نے ماحولیاتی آلودگی کیس کی سماعت کی۔
فاضل جج نے ریمارکس دیئے کہ متعلقہ حکام کی جانب سے سموگ پر قابو پانے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے اور بیوروکریٹس اپنے دفاتر میں بیٹھ کر وہاں سے رپورٹیں بھیج رہے ہیں۔
جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ اب میں خود دورہ کروں گا تاکہ سارا معاملہ معلوم ہو کیونکہ ہماری قوم سب کچھ جانتی ہے۔
عدالت نے سموگ، ماحولیاتی آلودگی اور آبی آلودگی سے متعلق کمیشن کی رپورٹ پر عملدرآمد کے لیے عدالتی معاون مقرر کر دیا۔
عدالت نے کیس کی سماعت 15 نومبر تک ملتوی کر دی۔
اس سے قبل جوڈیشل واٹر انوائرمنٹ کمیشن نے متعلقہ شہری کی جانب سے دائر درخواست کے جواب میں لاہور ہائی کورٹ میں رپورٹ جمع کرائی تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اینٹوں کے 250 بھٹوں اور 186 فیکٹریوں کو سیل کیا گیا کیونکہ ان کے کاروبار فضائی آلودگی میں بنیادی معاون تھے۔ مزید یہ کہ دھواں چھوڑنے پر 5,201 گاڑیوں پر جرمانہ عائد کیا گیا۔