پاکستان سپریم کورٹ میں ملک میں عام انتخابات 90 روز میں کروائے جانے سے متعلق کیس کی سماعت جاری ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے کیس میں دلائل مکمل کر لئے ہیں۔ چیف جسٹس نے سماعت کے دوران ریمارکس دئیے کہ صدر نے جب خود ایسا نہیں کیا تو وہ کسی اور کو یہ مشورہ کیسے دے سکتے ہیں، علی ظفر کیا آپ کہہ رہے ہیں صدر نے اپنا آئینی فریضہ ادا نہیں کیا، 9 اگست کو اسمبلی تحلیل ہوئی اور صدر نے ستمبر میں خط لکھا۔
جسٹ اطہر من اللہ نے اس پر ریمارکس دئیے کہ آئین کی کمانڈ بڑی واضح ہے صدر نے تاریخ دینا تھی اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم اس معاملہ کا جوڈیشل نوٹس بھی لے سکتے ہیں، آخری دن جا کر خط نہیں لکھ سکتے۔
اس پر پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ میری نظر میں صدر نے الیکشن کی تاریخ تجویز کر دی تھی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ ہم سے اب کیا چاہتے ہیں، آپ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم صدر کو ہدایت جاری کریں کہ آپ تاریخ دیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 98 بہت واضح ہے اس پر اس عدالت کا کردار کہاں آتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن نے کبھی کہا کہ صدر تاریخ دیں؟ وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ صدر مملکت نے تاریخ نہیں دی، اس پہلو کو ایک جانب رکھ کر سپریم کورٹ کو بھی انتخابات کا معاملہ دیکھنا چاہئے۔
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ کیا سپریم کورٹ صدر کے خلاف جاکر انتخابات کی تاریخ دے سکتی ہے؟ کیا آئین پاکستان سپریم کورٹ کو تاریخ دینے کا اختیار دیتا ہے؟ وکیل علی ظفر نے کہا جی بلکل سپریم کورٹ اس معاملے میں مداخلت کرسکتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ صدر مملکت نے جس خط میں تاریخ دی وہ کہاں ہے، علی ظفر نے صدر کا صدر مملکت کا خط پڑھ کر سنایا اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ صدر مملکت نے 9 اگست کو اسمبلی تحلیل کی تو اسمبلی تحلیل کرنے کیساتھ انتخابات کی تاریخ کیوں نہیں دی، آئین کے آرٹیکل 48 میں صدر کا تاریخ دینے کے اختیار پر بڑا واضح ہے۔