پی آئی اے دنیا کی بہترین ائیرلائنز میں سے ایک تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب ہر گھنٹے میں دنیا میں کہیں نہ کہیں پی آئی اے کی پرواز لینڈ یا ٹیک آف کر رہی ہوتی تھی۔ پی آئی اے کا سفر دنیا کی ائیرلائنز میں بہترین سفر مانا جاتا تھا۔ یورپ جیسے ملکوں کی ائیرلائنز کے عملے کو پی آئی اے ٹریننگ دیتی تھی۔ پی آئی اے کا منافع اتنا تھا کہ یہ ادارہ دنیا بھر میں انویسٹمنٹس کرتا تھا۔
پی آئی اے اتنا پیسہ کما رہی تھی کہ پی آئی اے نے لندن اور پیرس میں فائیو سٹار ہوٹلز خریدے جو آج اربوں ڈالر کے ہیں۔ پی آئی اے مختلف اداروں اور کاروبار میں پیسے لگایا کرتی تھی۔ پاکستانی نیشنل ائیرلائن کا عملہ دنیا بھر میں اپنی ٹریننگ اور معاملات کیلئے مشہور تھا۔ پاکستانی پائلٹس کی قابلیت کی پوری دنیا معترف تھی۔لوگ یورپ سے پاکستان یا کسی بھی ملک جانے کیلئے کوشش کرتے تھے کہ سفر پی آئی اے کے ذریعے کیا جائے۔ اس کے علاوہ ادارے کے پاس اپنے وقت کے جدید ترین اور بڑے طیارے تھے۔
پی آئی اے کا ایسا عروج آیا کہ جب متحدہ عرب امارات نے اپنی ائیرلائن ایمریٹس ائیرلائن بنائی تو ان کے پاس اپنا طیارہ اور عملہ تک نہیں تھا۔ پی آئی اے نے ایمریٹس کو اپنے جہاز لیز پر دیے اور ایمریٹس کی پہلی پرواز دبئی سے کراچی چلائی گئی، اس پرواز کا طیارہ بھی پی آئی اے کا تھا اور عملہ بھی۔ ایمریٹس کا سارا سسٹم پی آئی اے نے بنا کر دیا تھا۔
اسی طرح یورپی ملک مالٹا ، جس کی آئیرلائن آج دنیا بھر میں مشہور تھی، اس ملک کو بھی آئیرلائن قائم کرنے کیلئے پی آئی اے نے مدد فراہم کی تھی۔ اس کے علاوہ بھی کئی ممالک کو ائیرلائن کمپنیز کو ترقی کرنے میں پی آئی اے نے مدد دی اور اس کے بدلے بھی پی آئی اے اچھا خاصہ پیسہ لیتی تھی۔ پی آئی اے کے چارٹر طیارے بھی دنیا بھر کے امیر لوگ کرائے پر لیتے تھے۔ دنیا کے خطرناک ترین رن ویز پر جہاں دوسری ائیرلائنز جہاز لینڈ کروانے سے انکار کر دیتی تھیں، وہاں پی آئی اے کے طیارے روز لینڈ بھی کرتے اور ٹیک آف بھی۔
دنیا کی تیز ترین لمبی کمرشل فلائٹ کا ریکارڈ آج تک پی آئی اے کے پاس ہے۔ پی آئی اے کی فلائٹس میں بہترین کھانا دیا جاتا تھااور ائیرلائن کا معیار دنیا میں بہترین تھا۔لیکن پھر آہستہ آہستہ پی آئی اے زوال کا شکار ہونے لگی اور آج یہ حالات ہیں کہ دبئی کے ائیرپورٹ پر پی آئی اے کے طیارے اترتے ہیں تو انہیں واپس نہیں آنے دیا جاتا کہ فیول کے پیسے تک ادارے کے پاس نہیں ہوتے۔ کبھی یورپ پی آئی اے کے طیاروں کو کارگو لانے پرپابندی لگا دیتا ہےاور کبھی طیاروں کو روک لیا جاتا ہے۔ کبھی خبر آتی ہے کہ ادارے کا ہی کوئی شخص جا کر پی آئی اے کااربوں روپے کا ایک طیارہ چند لاکھ روپے میں دوسرے ملک کو بیچ آیا۔