کچھ تہذیبوں میں الو کو بیوقوفی، کم عقلی اور نحوست کی علامت سمجھا جاتا ہے جبکہ کچھ تہذیبوں میں الو کو ذہانت اور دانشوری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے مختلف تہذیبوں کی روایات میں الو سے منسلک کر کے کئی حکایات اور داستانین ملتی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ ایک طوطا اور طوطی جو کہ میاں بیوی تھے اڑتے ہوئے کسی دوسرے علاقے کی جانب گامزن تھے۔ راستے مین رکتے، کھاتے پیتے اور گنگناتے یہ میاں بیوی اپنی منزل کی جانب محو پرواز تھے۔ راستے میں انہوں نے کئی شہر، قصبے اور گاؤں دیکھے۔ کچھ پرانے کھنڈر بھی ان کی نطر سے گزرے۔ یونہی اڑتے اڑتے ایک روز وی ایک ایسے شہر پہنچے جہاں بہت سے مکان موجود تھے لیکن زیادہ تر مکان خالی تھے۔ بہت کم گھروں میں انسان آباد تھے اور پرندے بھی زیادہ نسلوں کے موجود نہیں تھے۔
طوطی نے کہا کہ یہ بستی بڑی ویران لگتی ہے اور گھروں کی تعمیر سے لگتا ہے کہ کچھ ہی عرصہ پہلے ویران ہونا شروع ہوئی ہے۔ طوطے نے یہ سن کر اپنے پرانے شہر کی ایک روایت یاد کرتے ہوئے کہا کہ یقینا یہاں کوئی الو آکر آباد ہو گیا ہوگا الو کی وجہ سے بستیاں ویران ہو جاتی ہیں۔
وہ دونوں ایک درخت پر بیٹھ گئے اور طوطا اسے بتانے لگا کہ الو بڑا منحوس ہوتا ہے جس بستی میں الو رہتا ہے وہ ویران ہو جاتی ہے۔ طوطا اور طاطی جس درخت پر بیٹھے تھے اسی درخت کے اندر ایک سوراخ میں ایک الو رہتا تھا۔ الو یہ ساری داستان سنتا رہا۔ کچھ دیر بعد الو باہر نکلا اور طوطا طوطی سے سلام دعا کے بعد انہیں دعوت دی کہ آج کی رات یہاں رک جاؤ، مجھے اپنی مہمان نوازی کا موقع دو۔ طوطا طوطی بھی کئی دنوں کی مسافت سے تھک گئے تھے اس لیے انہوں نے وہاں رات گزارنے کا ارادہ کر لیا۔
الو نے ان کی بہت آؤ بھگت کی، رات کے وقت وہ اڑتا ہوا قریبی کھیتوں سے سبز مرچیں اور ایسے کئی پھل لے آیا جو طوطے شوق سے کھاتے ہیں۔ طوطا اور طوطی نے رات اسی درخت کے سوراخ میں سو کر گزاری اور صبح اٹھنے کے بعد طوطا الو سے ملا اور اسکا شکریہ ادا کیا۔ پھر طوطا اور طوطی دونوں اپنی منزل کی جانب اڑنے لگے تو الو بولا کہ اربے بھائی طوطے ایک تو میں نے تمہاری دعوت کی دوسرا تم میری بیوی کو بھی بھگا کرلے جا رہے ہو۔
طوطا ہکا بکا رہ گیا، اس نے الو سے کہا کہ بھائی کیا بول رہے ہو تم۔ الو نے جواب دیا کہ یہ طوطی میری بیوی ہے، تم اسے ورغلا کر اپنے ساتھ لے جا رہے ہو۔ طوطا حیرت کی شدت سے پاگل ہی ہو گیا۔ اس نے کہا کہ بھائی الو کیسی باتیں کر رہے ہو یہ میری بیوی ہے۔
الو اپنی بات پر ڈٹ گیا اور طوطے کو کہا کہ شہر کے قاضی کے پاس چلتے ہیں وہی اب ہمارا فیصلہ کرے گا۔ طوطا چونکہ سچا تھا اس لیے فورا مان گیا اور شہر کے قاضی کے پاس چلے گئے۔ طوطے اور الو نے اپنے اپنے دلائل دیے۔ آخر میں قاضی نے فیصلہ سنایا کہ طوطی الو کی بیوی ہے اور طوطا جھوٹا ہے اور الو کی بیوی کو محبت کے جال مین پھنسا کر لے جا رہا تھا ۔
طوطا اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔ طوطے بیچارہ کچھ نہین کر سکتا تھا، مایوس ہو کر اڑنے لگا توالو نے اسکا پر پکڑ لیا اور بولا ارے ارے بھائی اکیلے کدھر کو جاتے ہو، اپنی بیوی کو تو لیتے جاؤ۔
طوطا غصے میں آگیا اور بولا کہ ابھی تم نے ثابت کروا دیا ہے قاضی سے کہ یہ تمہاری بیوی ہے، میں اسے کیسے لے جا سکتا ہوں۔ اس پر الو نے طوطی کا پر طوطے کے پر کے اوپر رکھ کر کہا بھائی یہ رکھو اپنی بیوی، یہ تمہاری ہی بیوی ہے۔ میں تمہیں صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ بستیاں الو کی وجہ سے ویران نہیں ہوتی، معاشرے اور گھر الو کی وجہ سے نہیں اجڑتے۔ بستیاں ناانصافی کی جہ سے ویران ہوتی ہیں۔جس معاشرے میں ناانصافی کا راج ہو وہ معاشرے اجڑ جاتے ہیں اور وہاں گھر ٹوٹ جاتے ہیں۔