ضلع موسیٰ خیل میں مسلح افراد کا حملہ، 20 مزدور اغوا
بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل میں خوفناک صورتحال اس وقت سامنے آئی جب نامعلوم مسلح افراد نے ایک تعمیراتی کیمپ پر حملہ کر کے 20 سے زائد مزدوروں کو اغوا کر لیا۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب مزدور قومی شاہراہ پر ایک تعمیراتی کمپنی کے کیمپ میں کام کر رہے تھے۔
پولیس کے مطابق، مسلح افراد پہلے کیمپ پر اندھا دھند فائرنگ کی اور پھر مزدوروں کو زبردستی اغوا کر کے لے گئے۔ اغوا کاروں نے نہ صرف مزدوروں کو اغوا کیا، بلکہ کمپنی کے زیر استعمال آٹھ بلڈوزرز کو بھی نذر آتش کر دیا۔ واقعے کے بعد علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اس المناک واقعے کے فوراً بعد علاقے کو گھیرے میں لے لیا گیا اور مزدوروں کی بازیابی کے لیے سرچ آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ پولیس اور دیگر سیکیورٹی ادارے اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ اغواکار کون ہیں اور ان کا مقصد کیا ہے۔ مقامی انتظامیہ نے صورتحال کو کنٹرول میں لینے کے لیے اضافی نفری بھی تعینات کی ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بلوچستان میں مزدوروں کے اغوا کے واقعات پہلے بھی رونما ہوتے رہے ہیں، لیکن حالیہ دنوں میں ایسے حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مسلح افراد کی جانب سے تعمیراتی کاموں میں رکاوٹیں ڈالنا اور مزدوروں کو نشانہ بنانا ایک تشویشناک صورتحال کی نشاندہی کرتا ہے۔
اس واقعے سے ایک دن قبل بلوچستان کے علاقے پنجگور میں خدا بدن کے مقام پر مسلح افراد نے گھر میں گھس کر 7 مزدوروں کو فائرنگ کر کے بے دردی سے قتل کر دیا تھا، جبکہ ایک مزدور شدید زخمی ہو گیا۔ مرنے والے مزدوروں کا تعلق پنجاب کے شہر ملتان سے تھا، جو کہ خدا بدن میں ایک گھر کی تعمیر کے کام میں مصروف تھے۔
ضلعی انتظامیہ نے اس بات کی تصدیق کی کہ ان مزدوروں کو کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے دہشت گردوں نے نشانہ بنایا تھا۔ مقتول مزدوروں میں ساجد، فیاض، خالد، شفیق، افتخار، سلمان، اور بلال شامل تھے، جبکہ زخمی مزدور کی شناخت محمد رمضان کے نام سے ہوئی ہے۔ اس سفاکانہ حملے نے پورے علاقے میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے اور سیکیورٹی فورسز کی کارکردگی پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔
بلوچستان میں حالیہ دنوں میں مزدوروں اور تعمیراتی کاموں پر ہونے والے حملوں میں تیزی آئی ہے۔ مختلف علاقوں میں شدت پسند گروہوں کی جانب سے تعمیراتی منصوبوں کو نشانہ بنانے اور مزدوروں کو اغوا کرنے کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ بلوچستان میں جاری شورش اور شدت پسندی کے باعث ترقیاتی منصوبوں کی رفتار بھی متاثر ہو رہی ہے اور مزدور طبقہ مسلسل خطرات کا شکار ہے۔
بلوچستان حکومت اور سیکیورٹی فورسز نے ان حملوں کی شدید مذمت کی ہے اور مزدوروں کی بازیابی کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کا یقین دلایا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لیے مربوط کارروائیاں جاری ہیں اور کسی بھی صورت میں ان عناصر کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔