صوبائی نمائندوں کے لیے ایک آئینی عدالت کا قیام ضروری ہے: بلاول بھٹو
کراچی: پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حالیہ تقریر میں صوبوں کے درمیان موجود فرق کو ختم کرنے کے لیے آئینی عدالت کے قیام کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے سندھ ہائی کورٹ کے وکلا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسے کئی آمرانہ دور گزرے ہیں جب جج صاحبان نے آمر کو آئین میں تبدیلی کی اجازت دی۔ یہ ایک ایسا دور تھا جس میں ججز نے کئی سال تک آئین کو بھول کر سارا اختیار آمر کے حوالے کر دیا۔
بلاول بھٹو نے اپنے وکالت کے تین نسلوں پر محیط تعلق کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہماری جماعت نے ملک کو ایک مضبوط آئین دیا، اور اگر آج پاکستان موجود اور مضبوط ہے، تو یہ 1973ء کے آئین کی بدولت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے آمرانہ دور کی سختیاں برداشت کیں، اور یہ دیکھنے میں آیا کہ معزز جج صاحبان کس طرح آمر کی مدد کرتے رہے۔
انہوں نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ بے نظیر بھٹو جیسی رہنما بھی اس وقت کے ججوں کے سامنے پیش ہوتی تھیں، جو انہیں آئین کی پاسداری کا درس دیتے تھے۔ ہمیں کرپشن کا الزام لگا کر خاموش کر دیا گیا،اور ایک سیاست دان کو ساڑھے گیارہ سال جیل میں رکھا گیا تاکہ بے نظیر جیسی نہتی رہنما کو بلیک میل کیا جا سکے۔
ایک بار پی سی او کا حلف لینا درست سمجھا جاتا ہے، لیکن دوسری بار یہ جمہوریت اور آئین کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔ ہم نے عوام کے حق میں چارٹر آف ڈیموکریسی بنایا ہے
چیئرمین پیپلز پارٹی نے اعلان کیا کہ وہ عدالت میں اصلاحات لائیں گے، اور یہ کہ قانون سازی اور آئین سازی کے لیے ایک آئینی عدالت کا قیام ضروری ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ شہریوں کو فوری انصاف ملے اور صوبوں کے درمیان فرق ختم ہو۔ اس وفاقی عدالت میں تمام صوبوں کے نمائندے ہوں گے، اور باری باری ہر صوبے سے چیف جسٹس منتخب کیا جائے گا
انہوں نے کہا کہ سیاسی مقدمات کو 90 فیصد وقت دیا جاتا ہے، جبکہ عوامی کیسز کو نظر انداز کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے آئینی عدالت کا قیام ناگزیر ہے۔ ہم ایک ایسی آئینی عدالت بنائیں گے جو صرف آئینی معاملات پر توجہ دے گی