پاکستان کا ٹیکس سسٹم، مالیاتی دہشت گردی یا غریبوں پر ظلم؟
اسلام آباد: پاکستان کا موجودہ ٹیکس نظام ملک میں ایک ایسے مالیاتی نظام کی شکل اختیار کرچکا ہے جو غریب عوام کو بوجھ تلے دبا رہا ہے۔ ٹیکس ریونیو کا بڑا حصہ انڈائریکٹ ٹیکسوں (جی ایس ٹی اور ایکسائز ڈیوٹی) سے اکٹھا کیا جاتا ہے، جو دراصل غریب طبقے پر بھاری بوجھ ڈال رہا ہے۔ حالانکہ قانونی طور پر 50 ہزار روپے سے کم آمدنی والے افراد کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، لیکن یہ طبقہ بھی انڈائریکٹ ٹیکسز کی مد میں اپنی آمدنی کا تقریباً 40 فیصد بطور ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہے۔
انڈائریکٹ ٹیکسز میں بجلی، پٹرول، خوراک، اور فون سروسز جیسی ضروریات زندگی پر عائد ٹیکس شامل ہیں۔ اس نظام کی وجہ سے غریب طبقے کی زندگی مزید مشکل ہو رہی ہے جبکہ معاشی عدم مساوات اور طبقاتی تفریق میں اضافہ ہو رہا ہے۔
موجودہ معاشی بحران کے دوران ٹیکسوں میں مسلسل اضافہ غریب عوام کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ اگرچہ حکومت نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسے اقدامات کے ذریعے غریب طبقے کی مدد کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن بدقسمتی سے یہ اقدامات شفافیت کی کمی اور نااہلی کی وجہ سے مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام رہے ہیں۔
دوسری جانب، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے چھوٹے تاجروں اور کاروباری افراد پر ٹیکس وصولیوں میں اضافہ کیا ہے، جبکہ بڑے سرمایہ کاروں اور طاقتور طبقے کو ٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہے۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کو ایک مؤثر ٹیکس ریفارم کی ضرورت نہیں؟ کیا زراعت پر ٹیکس عائد نہیں کیا جانا چاہیے؟ کیا ویلتھ ٹیکس اور سپر ٹیکس کی شرح میں اضافہ ممکن نہیں؟
ایف بی آر کی موجودہ پالیسیوں اور انڈائریکٹ ٹیکسز کے غیر منصفانہ نظام نے عوام میں شدید غم و غصہ پیدا کر دیا ہے۔ انڈائریکٹ ٹیکسز کی صورت میں جب ٹیکس وصولی پہلے ہی عوام سے کی جا رہی ہے، تو ایف بی آر کا کیا کردار باقی رہ جاتا ہے؟
ٹیکس چوری کی بڑھتی ہوئی شرح اور محدود ٹیکس بیس نے ایک ایسے نظام کو جنم دیا ہے جو مزید ٹیکس دہندگان کو بوجھ تلے دبا رہا ہے۔ نتیجتاً، ٹیکس دہندگان خوفزدہ ہیں اور اس غیر منصفانہ نظام کو مالیاتی دہشت گردی کے مترادف قرار دیتے ہیں۔