سپریم کورٹ کا بوجھ کم کرنے کے لیے آئینی عدالتوں کا قیام ضروری ہے:بلاول بھٹو
پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے عدالتی نظام میں بہتری لانے کے لیے آئینی عدالتوں کے قیام کو ضروری قرار دیا ہے۔ اسلام آباد میں وکلاء سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں آئینی عدالتوں کے قیام کے بغیر عدالتی نظام کو جدید اور شفاف نہیں بنایا جا سکتا۔ انہوں نے وکلاء کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ وکلاء نے ہر آمریت کے خلاف صف اول میں کھڑے ہو کر مزاحمت کی ہے اور جمہوریت کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ وکلاء ہمیشہ پیپلز پارٹی کے اثاثہ رہے ہیں اور انہوں نے ملک کو آئین فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی عدالتی شہادت آج تک انصاف کی علمبردار قوتوں کے سامنے سوالیہ نشان ہے۔ بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا تھا کہ جن ججوں کو سیاست کرنی ہے، انہیں اپنی پارٹی بنا لینی چاہیے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ آئین کی بالادستی اور عدالتی نظام میں اصلاحات کے لیے آئینی عدالتوں کا قیام ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ذوالفقار بھٹو کیس جیسے اہم مقدمات میں اتنا زیادہ وقت صرف ہونا عام آدمی کے لیے انصاف تک رسائی کو مشکل بناتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عام شہریوں کو چوری اور قتل جیسے مقدمات میں سالہا سال انتظار کرنا پڑتا ہے، جو عدالتی نظام کی ناکامی کی علامت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ میں 50 فیصد مقدمات آئینی نوعیت کے ہوتے ہیں لیکن انہیں 90 فیصد وقت ملتا ہے، جس کی وجہ سے دیگر اہم مقدمات میں تاخیر ہوتی ہے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ ہمیں ایسی آئینی عدالتیں قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں عوام کے لیے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے، نہ کہ ڈیم بنانے یا ٹماٹر کی قیمتیں طے کرنے جیسے مسائل پر وقت ضائع کیا جائے۔
بلاول بھٹو نے میثاق جمہوریت کی یاد دہانی کراتے ہوئے کہا کہ اس وقت بھی پیپلز پارٹی کی قیادت نے آئینی عدالتوں کے قیام کی تجویز دی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب میثاق جمہوریت کیا گیا، اس وقت افتخار چوہدری پی سی او کے تحت مشرف کی عدالت کا جج تھا اور پیپلز پارٹی نے سوچا کہ اگر عوام کو انصاف فراہم کرنا ہے تو آئینی عدالتوں کا قیام ضروری ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے یہ بھی کہا کہ صوبائی سطح پر ہائی کورٹ کے ججز اور وکلاء سے مشاورت کر کے آئینی عدالتیں قائم کی جا سکتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت نہیں تو مستقبل میں ایسی عدالتیں ضرور قائم ہوں گی جو آئینی معاملات کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کریں گی۔