بلوچستان میں تعلیمی بحران شدت اختیار کر گیا،3,500 سے زائد اسکول غیر فعال

بلوچستان میں تعلیمی بحران شدت اختیار کر گیا،3,500 سے زائد اسکول غیر فعال

کوئٹہ:پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ بلوچستان اس وقت شدید تعلیمی بحران کا شکار ہے۔ حال ہی میں محکمہ تعلیم بلوچستان کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صوبے بھر میں 3,500 سے زائد اسکول اساتذہ کی کمی کے باعث غیر فعال ہو چکے ہیں۔ یہ تعداد پورے صوبے میں پھیلے ہوئے 35 اضلاع کے اسکولوں کی ہے، جہاں نہ صرف لڑکوں بلکہ لڑکیوں کے اسکول بھی متاثر ہو رہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق صرف فروری 2024 سے نئی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے 542 اسکول بند ہو چکے ہیں۔ جس کے بعد غیر فعال اسکولوں کی مجموعی تعداد 3,694 تک پہنچ گئی ہے۔ یہ مسئلہ بلوچستان کے تعلیمی نظام کی خراب حالت اور حکومتی سطح پر توجہ نہ دیے جانے کی عکاسی کرتا ہے۔
محکمہ تعلیم کے مطابق صوبے کے مختلف اضلاع میں اسکولوں کی بندش کی صورتِ حال مختلف ہے، تاہم پشین اور خضدار سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں شامل ہیں۔
پشین میں 254 اسکول غیر فعال ہیں۔
خضدار میں 251 اسکول بند ہیں۔
قلات اور قلعہ سیف اللہ میں 179 اسکول غیر فعال ہو چکے ہیں۔
بارکھان میں 174، آوران میں 161، اور کوئٹہ میں 152 اسکول بند ہیں۔
یہ اعدادوشمار بلوچستان کے وسیع تر تعلیمی بحران کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جہاں نہ صرف بنیادی تعلیمی سہولیات کی فراہمی میں رکاوٹیں ہیں بلکہ ان اضلاع میں اسکولوں کے دوبارہ فعال ہونے کے امکانات بھی کم نظر آتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کے آبائی شہر ڈیرہ بگٹی میں بھی 13 اسکول بند ہیں، جو اس مسئلے کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔ مزید برآں، صوبے میں اس وقت تقریباً 16,000 اساتذہ کی کمی ہے، جو تعلیمی اداروں کے دوبارہ فعال ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اساتذہ کی یہ کمی نہ صرف اسکولوں کو غیر فعال کرتی ہے بلکہ طلباء کی تعلیمی ترقی پر بھی منفی اثرات ڈال رہی ہے۔
یہ واضح ہے کہ بلوچستان کے تعلیمی نظام کو فوری اور موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو فوری طور پر بھرتیاں کرنا ہوں گی اور ساتھ ہی ان اضلاع میں تعلیمی اداروں کی بہتر کارکردگی کے لیے فنڈز مختص کرنا ہوں گے۔اساتذہ کی کمی، اسکولوں کی بندش، اور تعلیمی نظام کی بگڑتی حالت نہ صرف صوبے کے مستقبل کو داؤ پر لگا رہی ہے بلکہ یہ پورے ملک کی ترقی میں بھی ایک بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔
حکومت کو اس بحران سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر اساتذہ کی بھرتی کے عمل کو تیز کرنا ہو گا۔ ساتھ ہی مقامی سطح پر تعلیمی منصوبے متعارف کرائے جانے چاہئیں تاکہ دیہی علاقوں میں بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کی جا سکے۔ ان اقدامات کے بغیر بلوچستان میں تعلیمی ترقی کا خواب ادھورا رہے گا۔

web

Recent Posts

بیٹر کے زوردار شارٹ نے ایمپائر کے منہ کا حلیہ بگاڑ دیا

بیٹر کے زوردار شارٹ نےایمپائر کے منہ کا حلیہ ہی بگاڑ دیا جس کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل…

1 دن ago

اجتجاج کا معاملہ،حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان ابتدائی رابطے کے بعد 2 ملاقاتیں

پاکستان تحریک انصاف کا 24 نومبر کو ہونے والا احتجاج رکوانے کے لیے پس پردہ ملاقاتیں جاری ہیں۔سینیئر صحافی انصار…

1 دن ago

عمران خان کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور

سابق وزیراعظم عمران خان کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور کر لی گئی۔آج اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس…

2 دن ago

باباوانگا کی ۲۰۲۵ سے متعلق خطرناک پیشگوئیاں

معروف خاتون نجومی باباوانگا نے ۲۰۲۵ سے متعلق خطرناک پیشگوئیاں کر دیں۔۱۹۱۱ میں پیدا ہونے والی بابا وانگا نے مرنے…

2 دن ago

عمران خان کا پیغام ہے کہ تمام پاکستانی 24 نومبر کو اپنے حقوق کے لئے نکلیں۔ علیمہ خان

علیمہ خان نے اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)…

4 دن ago

پاکستان میں وی پی این بند نہیں ہوا۔ اس کے بغیر آئی ٹی انڈسٹری کی ترقی اور کاروبار کا چلنا ممکن نہیں

چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) حفیظ الرحمان نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے واضح…

4 دن ago