آئینی خلاف ورزی یا بدنیتی پر ہی عدلیہ پالیسی معاملات کا جائزہ لے سکتی ہے: جسٹس یحییٰ آفریدی
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ریکوڈک کیس کے حوالے سے دیے گئے صدارتی ریفرنس کی تفصیلی وجوہات جاری کر دی ہیں۔ اس میں جسٹس یحیٰ آفریدی نے پہلے سوال پر رائے دینے سے گریز کیا ہے، جس کی وضاحت انہوں نے اپنے نوٹ میں پیش کی ہے۔سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے صدارتی ریفرنس پر سماعت کی تھی، جس کی سماعت 29 نومبر 2022 کو مکمل ہوئی اور 9 دسمبر 2022 کو سپریم کورٹ نے مختصر رائے جاری کی تھی۔
اب اس رائے کی تفصیلی وجوہات سامنے آئی ہیں۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ وہ ریکوڈک ریفرنس کے پہلے سوال پر رائے نہیں دیں گے کیونکہ ان کے مطابق یہ سوال قانونی نوعیت کا نہیں ہے۔ انہوں نے لکھا کہ پالیسی معاملات کو ریاست کے دیگر ستونوں یعنی پارلیمنٹ اور ایگزیکٹو پر چھوڑ دینا چاہیے اور عدلیہ کو ایسے معاملات میں مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صرف آئینی یا قانونی خلاف ورزی یا بدنیتی کی صورت میں عدلیہ ایگزیکٹو کے پالیسی فیصلوں کا جائزہ لے سکتی ہے۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے نوٹ میں مزید کہا کہ ریکوڈک فیصلے کے نتائج کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور سپریم کورٹ کو ایسے "جوڈیشل ایڈونچر” سے گریز کرنا چاہیے جس میں عدلیہ پبلک پالیسی کے معاملات میں بے جا مداخلت کرے۔ انہوں نے کہا کہ ریکوڈک منصوبے سے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا، روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو فائدہ ہوگا۔
جسٹس مندوخیل نے ریکوڈک ریفرنس کے بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 144 کے تحت صوبائی اسمبلیوں کو اختیار ہے کہ وہ فارن انویسٹمنٹ پروٹیکشن اینڈ پروموشن ایکٹ بل 2022 کو ضرورت کے تحت ختم یا توسیع دے سکیں۔ انہوں نے زور دیا کہ حکومت پاکستان اور بلوچستان کو مستقبل کی نسلوں کے لیے رائیلٹی طے کرنی چاہیے تاکہ اس منصوبے کے فوائد مستقل بنیادوں پر عوام تک پہنچ سکیں۔
سپریم کورٹ نے اپنی تفصیلی رائے میں لکھا کہ صوبائی اسمبلیاں بیرونی سرمایہ کاری کے معاملات میں قرارداد کے ذریعے پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دے سکتی ہیں۔ سندھ اور بلوچستان اسمبلی کی قراردادوں کے بعد فارن انویسٹمنٹ ایکٹ آئینی طور پر درست قرار دیا گیا ہے۔
یہ بھی واضح کیا گیا کہ اس ایکٹ کا بلوچستان میں اطلاق صرف ریکوڈک منصوبے تک محدود ہے، اور صوبائی حکومتیں چاہیں تو اپنے علاقے میں اس ایکٹ کو ختم کر سکتی ہیں۔ریکوڈک منصوبہ پاکستان کے لیے ایک اہم معاشی منصوبہ ہے جس کے تحت بلوچستان کے معدنی وسائل سے فائدہ اٹھایا جائے گا۔ اس منصوبے سے نہ صرف ملکی معیشت کو تقویت ملے گی بلکہ مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ سپریم کورٹ نے اس منصوبے کے آئینی اور قانونی پہلوؤں کا جائزہ لے کر اسے ملکی مفاد میں قرار دیا ہے۔