سپریم کورٹ کا نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیلوں پر کل فیصلہ متوقع
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان کل قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیلوں پر اپنا محفوظ فیصلہ سنانے جا رہی ہے۔ یہ فیصلہ 6 جون کو محفوظ کیا گیا تھا، جب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے مقدمے کی سماعت مکمل کی تھی۔ اس بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بھی شامل ہیں۔
وفاقی حکومت نے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کی تھی۔ نیب ترامیم کو اس سے قبل 15 ستمبر 2023 کو سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیا تھا، جس کے بعد حکومت نے فوری طور پر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔
نیب ترامیم 2022 میں حکومت کی جانب سے متعارف کروائی گئی تھیں، جن میں بعض ترامیم عوامی عہدوں پر فائز افراد کے خلاف نیب کی کارروائیوں کو محدود کرتی تھیں اور 50 کروڑ روپے سے کم مالیت کی کرپشن پر نیب کی تحقیقات کو ختم کرنے کی تجاویز دی گئی تھیں۔سپریم کورٹ نے 15 ستمبر 2023 کو نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے نیب ترامیم کی کچھ شقوں کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
عدالت نے نیب کو 50 کروڑ روپے سے کم کرپشن کے کیسز کی دوبارہ تحقیقات کی اجازت دی اور عوامی عہدے پر فائز شخصیات کے خلاف کرپشن کیسز بحال کر دیے تھے۔ عدالت نے حکم دیا تھا کہ احتساب عدالتوں میں ختم کیے گئے تمام مقدمات کو دوبارہ ایک ہفتے کے اندر شروع کیا جائے۔اس کے علاوہ، پلی بارگین کے حوالے سے کی گئی نیب ترامیم بھی کالعدم قرار دی گئیں جبکہ آمدن سے زیادہ اثاثوں سے متعلق ترامیم سرکاری افسران تک محدود رہیں گی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے عدالت میں دائر اپیل میں مؤقف اپنایا گیا کہ نیب ترامیم میں کسی بنیادی حق کی خلاف ورزی نہیں کی گئی اور یہ ترامیم پارلیمان کے قانون سازی کے اختیار کے تحت کی گئی تھیں۔ عدالت میں دورانِ سماعت، جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل سے سوال کیا تھا کہ کیا آپ 90 دنوں کی نیب ریمانڈ مدت سے مطمئن ہیں؟ اور کیا آپ 50 کروڑ سے کم کرپشن پر بھی نیب کی کارروائی کو مناسب سمجھتے ہیں؟حکومت نے عدالت سے نیب ترامیم کو بحال کرنے کی استدعا کی تھی اور کہا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ پارلیمانی اختیار سے تجاوز کر رہا ہے۔کل عدالت اس اہم ترین مقدمے کا فیصلہ سنائے گی، جس کا ملکی سیاست اور احتسابی عمل پر گہرا اثر پڑنے کی توقع ہے۔