کیا جنرل فیض حمید بچ پائیں گے؟ فوج نے اہم کیس کا آغاز کر دیا
راولپنڈی: پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے ایک اہم پریس کانفرنس میں کہا کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی، لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف فوج کے خوداحتسابی کے نظام کے تحت کاروائی جاری ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ جنرل فیض حمید نے ذاتی مفاد کے لیے قانونی و آئینی حدود سے تجاوز کیا اور سیاسی عناصر کی حمایت میں کام کیا، جس کے سنگین نتائج بھگتنے پڑ رہے ہیں۔
ان کے خلاف فوج کے قوانین کے تحت کورٹ مارشل کی کارروائی کا آغاز کیا جا چکا ہے۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے پریس کانفرنس میں کہا کہ فوج ہمیشہ خوداحتسابی کے عمل پر یقین رکھتی ہے اور کسی بھی شخص کو، چاہے وہ کسی بھی عہدے پر فائز ہو، قانون سے بالاتر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنرل فیض حمید کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں جن کی بنیاد پر یہ کارروائی کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف پاک فوج کی جنگ جاری ہے اور اس سال 32 ہزار سے زائد انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے، جن میں سینکڑوں دہشتگردوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔
وادی تیراہ میں جاری آپریشن میں 37 دہشتگرد مارے گئے جبکہ 193 بہادر جوان اور افسران نے اپنی جانیں ملک کی خاطر قربان کیں۔ترجمان نے اس بات پر زور دیا کہ فوج کا کام دہشتگردوں کے زیرقبضہ علاقوں کو کلیئر کرنا اور ایک سازگار ماحول فراہم کرنا ہے تاکہ مقامی حکومتیں ان علاقوں کی تعمیر نو کر سکیں۔ انہوں نے مقامی اور صوبائی حکومتوں پر زور دیا کہ وہ ان علاقوں کی ترقی کے لیے فوری اقدامات اٹھائیں اور فوج کے ساتھ تعاون کو مضبوط بنائیں۔
جنرل احمد شریف نے کہا کہ پاک فوج غیرسیاسی ادارہ ہے اور کسی بھی سیاسی ایجنڈے کو سپورٹ نہیں کرتی۔ انہوں نے واضح کیا کہ جنرل فیض حمید کا کیس اس بات کی مثال ہے کہ فوج سیاسی اور ذاتی مفادات کے لیے کیے جانے والے غلط فیصلوں کو برداشت نہیں کرتی۔افغانستان کے ساتھ تعلقات پر بات کرتے ہوئے جنرل احمد شریف نے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات بہتر ہیں اور جو عناصر ان میں خلل ڈالنا چاہتے ہیں، وہ کامیاب نہیں ہوں گے۔