وفاقی حکومت کا رائٹ سائزنگ پلان، 60 ہزار ملازمین کی برطرفی کا خدشہ
اسلام آباد: وفاقی حکومت نے رائٹ سائزنگ کمیٹی کی سفارشات کے تحت سول سرونٹس ایکٹ 1973 میں ترمیم پر کام شروع کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں 60 ہزار تک سرکاری ملازمین متاثر ہو سکتے ہیں۔ یہ اقدام وفاقی حکومت کی جانب سے سرکاری اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور انتظامی ڈھانچے کو مزید مؤثر بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق، رائٹ سائزنگ کمیٹی نے 82 سرکاری اداروں کو 40 میں ضم کرنے کی سفارش کی تھی، جسے وفاقی کابینہ نے منظور کر لیا ہے۔ ان سفارشات کے تحت، پہلے مرحلے میں متاثرہ ملازمین کو سرپلس پول میں بھیجا جائے گا، جبکہ دوسرے مرحلے میں انہیں دیگر سرکاری محکموں میں ایڈجسٹ کیا جائے گا۔
متاثرہ ملازمین کے لیے "گولڈن ہینڈ شیک” کا آپشن بھی رکھا گیا ہے، جو کہ انہیں قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے ساتھ مالی امداد فراہم کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ اس پروگرام کے تحت، ایسے ملازمین جو نئے محکموں میں ایڈجسٹ نہیں ہو سکتے یا ریٹائرمنٹ کے قریب ہیں، انہیں گولڈن ہینڈ شیک کا آپشن دیا جائے گا۔دستاویزات کے مطابق، سول سرونٹس ایکٹ 1973 کی سیکشن 2 اور سیکشن 11 میں ترمیم کی جا رہی ہے۔
سیکشن 2 کا تعلق ملازمین کی تقرری کی شرائط سے ہے، جبکہ سیکشن 11 ملازمین کی برطرفی اور پنشن کے امور سے متعلق ہے۔ اس کے علاوہ، فنانس ڈویژن نے سرونٹس ایکٹ کی سیکشن 19 میں ایک نئی شق کے اضافے کی سفارش کی ہے، جس کے تحت وفاقی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ ضرورت پڑنے پر پنشن کے موجودہ فوائد میں کمی، اضافہ یا خاتمہ کر سکے۔
ترمیمی مسودہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے تیار کیا ہے اور اسے منظوری کے لیے وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ اس ترمیم کے بعد، حکومت کے پاس سرکاری ملازمین کی تعداد میں کمی اور پنشن کے نظام میں اصلاحات کرنے کا قانونی اختیار ہوگا۔یہ اقدامات حکومت کے اس مقصد کا حصہ ہیں کہ سرکاری محکموں میں غیر ضروری عملے کو کم کیا جائے اور عوامی وسائل کا بہتر استعمال ممکن بنایا جائے۔ تاہم، اس منصوبے کے باعث ہزاروں سرکاری ملازمین کی ملازمتوں پر خطرے کے بادل منڈلا رہے ہیں، جس سے ان کے معاشی مستقبل پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔