عسکریت پسندوں کے پاس موجود اسلحہ فوج کے پاس بھی نہیں, خیبر پختونخوا کے گورنر کا انکشاف
گزشتہ روز لاہور میں گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی کی جانب سے دی گئی ایک پریس کانفرنس میں ایسے انکشافات سامنے آئے جنہوں نے ملک میں امن و امان کی صورتحال پر نئے سوالات اٹھا دیے ہیں۔ گورنر کے پی نے نہ صرف صوبے میں موجود مسائل کا تذکرہ کیا بلکہ امن کے قیام کی ذمہ داریوں اور ماضی کی غلطیوں کی طرف بھی اشارہ کیا۔ ان کے ہمراہ جامعہ اشرفیہ کے مہتمم مولانا فضل الرحیم بھی موجود تھے، جو کہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ امن کے قیام کے لئے ہر سطح پر کوششیں کی جارہی ہیں۔
پریس کانفرنس کا آغاز کرتے ہوئے گورنر فیصل کریم کنڈی نے بتایا کہ نیٹو فورسز جب افغانستان سے نکل رہی تھیں تو انہوں نے واضح کیا کہ تمام اسلحہ واپس لے جانا ممکن نہیں ہوگا اور نہ ہی اسے مکمل طور پر تباہ کیا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول، یہ وہی اسلحہ ہے جو اب لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، اور اس کی جدیدیت کے باعث بعض ہتھیاروں کو ہماری افواج کے پاس موجود اسلحے سے بھی برتر تصور کیا جا سکتا ہے۔
گورنر کے پی نے ماضی کی پالیسیوں پر بھی سوالات اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے ادوار میں جو فیصلے کیے گئے، وہ بعد میں نقصانات کا سبب بنے۔ خاص طور پر، افغانستان سے عسکری عناصر کو یہاں لانا ایک بڑی غلطی تھی، اور یہ سوچنا کہ یہ عناصر دوبارہ ہتھیار نہیں اٹھائیں گے، محض خوش فہمی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ "ہمیں امن کی تلاش ہے، اور اس کی کوشش کرنے والوں کی تعداد میں اضافے کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں دیرپا امن قائم کیا جا سکے۔”
گورنر فیصل کریم کنڈی نے 18ویں ترمیم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صوبے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے علاقوں میں امن قائم کرے جبکہ وفاق ان کے ساتھ ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ صوبائی حکومت کی ہر ممکن مدد کرے لیکن امن کے قیام کی اصل ذمہ داری صوبے کے کندھوں پر ہے۔
پارہ چنار میں ہونے والے سانحے کا ذکر کرتے ہوئے گورنر نے کہا کہ جب وہاں پچاس سے زائد افراد شہید ہوئے تو اس واقعے کو شیعہ سنی اختلافات کے طور پر پیش کیا گیا جبکہ حقیقت میں وہاں زمین اور جائیدادوں کے مسائل کی وجہ سے جھگڑا ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ اکثر ایسے معاملات میں جب سانحہ رپورٹ ہوتا ہے تو خبر اسلام آباد یا لاہور پہنچنے تک اس کی نوعیت بدل دی جاتی ہے، اور اصل وجوہات پس پشت چلی جاتی ہیں۔ اس سے نہ صرف صورتحال کی سنگینی بڑھتی ہے بلکہ اس کے حل میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں۔
نیٹو افواج کے یہاں سے جانے کے بعد چھوڑے گئے اسلحے کا ذکر کرتے ہوئے گورنر نے بتایا کہ یہ اسلحہ اب عسکریت پسندوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ ہتھیار اتنے جدید اور خطرناک ہیں کہ ان کی موجودگی سیکورٹی فورسز کے لئے چیلنج بن گئی ہے۔ فیصل کریم کنڈی نے یہ اعتراف بھی کیا کہ بعض عسکریت پسند گروہوں کے پاس موجود اسلحہ شاید ہماری افواج کے پاس بھی نہ ہو۔
بیٹر کے زوردار شارٹ نےایمپائر کے منہ کا حلیہ ہی بگاڑ دیا جس کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل…
پاکستان تحریک انصاف کا 24 نومبر کو ہونے والا احتجاج رکوانے کے لیے پس پردہ ملاقاتیں جاری ہیں۔سینیئر صحافی انصار…
سابق وزیراعظم عمران خان کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور کر لی گئی۔آج اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس…
معروف خاتون نجومی باباوانگا نے ۲۰۲۵ سے متعلق خطرناک پیشگوئیاں کر دیں۔۱۹۱۱ میں پیدا ہونے والی بابا وانگا نے مرنے…
علیمہ خان نے اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)…
چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) حفیظ الرحمان نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے واضح…