توانائی کے شعبے میں 45 کھرب روپے کا نقصان, آڈیٹر جنرل کی چشم کشا رپورٹ
پاکستان میں توانائی کے شعبے میں سنگین مالی بدعنوانیوں اور نااہلیوں کا انکشاف ہوا ہے، جس نے ملک کو دیوالیہ ہونے کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کی تازہ ترین رپورٹ میں 45 کھرب روپے کے نقصان کی نشاندہی کی گئی ہے، جو توانائی کے شعبے میں موجود خراب حکمت عملیوں، ناقص مالیاتی انتظامات اور احتسابی عمل کے فقدان کا نتیجہ ہے۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے 2023-2024 کی آڈٹ رپورٹ میں توانائی کے شعبے کے مختلف اداروں، خصوصاً کے الیکٹرک اور دیگر ڈسٹریبیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) کی جانب سے ہونے والی مالی بدعنوانیوں اور نااہلیوں کو اجاگر کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) نے اپنے آڈٹ میں یہ انکشاف کیا کہ کے الیکٹرک سمیت دیگر ڈسٹریبیوشن کمپنیوں سے 25 کھرب روپے کی وصولی ممکن تھی، لیکن نااہلی اور غیر مؤثر حکمت عملیوں کی وجہ سے یہ رقم وصول نہیں کی جا سکی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس مالی عدم وصولی کی وجہ سے پاور سیکٹر شدید مالی بحران کا شکار ہے۔ پروڈیوسروں کو بروقت ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے پاور سیکٹر کو KIBOR + 2pc سے KIBOR + 4pc تک کے دیر سے ادائیگی کے سرچارجز ادا کرنے پڑ رہے ہیں، جس سے مالیاتی بوجھ مزید بڑھ گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، 2021 اور 2022 کے مالی سالوں میں ڈسٹریبیوشن کمپنیوں سے توانائی کی فروخت پر 2530.65 ارب روپے کی عدم وصولی ہوئی۔ مزید برآں، آڈٹ نے انکشاف کیا کہ 877.596 ارب روپے کی رقم ان سرکاری اور نجی صارفین سے وصول کی جا سکتی تھی جو یا تو مستقل طور پر منقطع ہو چکے ہیں یا جنہوں نے توانائی کے بل ادا نہیں کیے۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ نے واضح کیا ہے کہ ان نادہندگان سے وصولی کو تیز کرنے کے لیے انتظامیہ کی جانب سے کوئی مؤثر کوشش نہیں کی گئی۔ نتیجتاً، توانائی کے شعبے میں گردشی قرضہ بڑھتا جا رہا ہے، اور ملک کی معیشت پر اس کا منفی اثر پڑ رہا ہے۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے لیے فوری اقدامات کرے، تاکہ مالیاتی انتظامات کو بہتر بنایا جا سکے اور احتسابی عمل کو مضبوط کیا جا سکے۔ اگر اس حوالے سے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو توانائی کا بحران مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔