لاپتا افراد کیس: جبری گمشدگیاں کس کے مفاد میں؟عدالت نے حکومت کی نااہلی پر سوال اٹھا دیے
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایک اہم کیس کی سماعت کے دوران حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے جبری گمشدگیوں کے مسئلے پر اپنے ریمارکس دیے۔ کیس کی سماعت جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی سربراہی میں ہوئی، جس میں عدالت نے حکومت کو بظاہر جبری گمشدگیوں کا بینیفشری قرار دیا۔
کیس کا پس منظر یہ ہے کہ اظہر مشوانی کے دو لاپتا بھائیوں کی بازیابی کے حوالے سے درخواست دائر کی گئی تھی، جس کی سماعت کے دوران عدالت نے سخت سوالات اٹھائے۔ عدالت نے پوچھا کہ لاپتا افراد کے بارے میں اب تک کیا معلومات ملی ہیں؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے بتایا کہ ہائی لیول پر رابطہ کیا گیا ہے اور ہر ممکن کوشش جاری ہے، لیکن تاحال کوئی ٹھوس معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہیں۔
درخواست گزار کے وکیل بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ قانون میں بغاوت اور بغاوت پر اکسانے کے حوالے سے قوانین موجود ہیں، لیکن ان قوانین کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جبری گمشدگیاں قومی مفاد کے نام پر کی جاتی ہیں، لیکن اس کا کوئی معقول جواز نہیں دیا جاتا۔
پنجاب پولیس کے ایس پی لاہور نے عدالت کو بتایا کہ فیملی کی جانب سے فراہم کردہ سی سی ٹی وی فوٹیج کی ریزولیوشن کم تھی، جس کی وجہ سے نادرا یا فرانزک ایجنسی سے کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ جیو فینسنگ کے ذریعے 10 ہزار نمبرز کی چھان بین کی گئی، لیکن کوئی ٹھوس معلومات نہیں مل سکیں۔ پولیس افسر نے مزید بتایا کہ لاپتا افراد 6 جون سے غائب ہیں اور تین ماہ گزرنے کے باوجود بھی ان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ حکومت اس معاملے پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی اور بظاہر وہی جبری گمشدگیوں کی بینیفشری نظر آتی ہے۔ عدالت نے کہا کہ کیسے ممکن ہے کہ اس ملک میں لوگ اغوا ہو رہے ہیں اور چیف ایگزیکٹو (وزیر اعظم) اس پر کوئی ایکشن نہیں لے رہے؟ عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ جب سے یہ کیس اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر سماعت آیا ہے، تفتیش رک کیوں گئی ہے؟
وکیل بابر اعوان نے عدالت سے وزیراعظم کو طلب کرنے کی استدعا کی، لیکن عدالت نے کہا کہ آئین کے مطابق ریاست کے سربراہ وزیر اعظم ہوتے ہیں اور قانون کے سربراہ اٹارنی جنرل، اس لیے ہم نے پراسس کے تحت اٹارنی جنرل کو طلب کیا تھا۔ عدالت نے مزید کہا کہ اگر حکومت قانون کے مطابق عمل نہیں کرے گی تو اس سے ملک کی بدنامی ہوگی۔
عدالت نے کیس کو منگل تک ملتوی کرتے ہوئے جے آئی ٹی کے سربراہ کو رپورٹس جمع کرانے کی ہدایت کی اور اس بات کی وضاحت طلب کی کہ غیر پولیس اہلکاروں نے پولیس کی وردی کیسے پہنی