ہر سال پاکستان میں ایک ہزار خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہیں
لاہور: خواتین کے حقوق کی تنظیموں کے ایک سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ پنجاب میں 2023 کے پہلے چار مہینوں میں خواتین کے خلاف تشدد کے 10 ہزار 365 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جبکہ ملک بھر میں ہر سال تقریباً ایک ہزار خواتین غیرت کے نام پر قتل کی جاتی ہیں۔
انسانی حقوق کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر سال تقریباً ایک ہزار خواتین غیرت کے نام پر قتل کی جاتی ہیں، جبکہ پنجاب میں خواتین کے تحفظ اور انصاف کی فراہمی کے لیے کئی ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ تاہم، سیاسی حکومتیں موجودہ اداروں کو مضبوط کرنے کے بجائے نئے ادارے قائم کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔
سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) کی رپورٹ کے مطابق، پنجاب میں 2023 کے ابتدائی مہینوں میں خواتین کے خلاف تشدد کے 10 ہزار 365 واقعات پولیس کے علم میں آئے۔
"اسٹیٹس آف ویمن ان پاکستان” کی 2023 کی رپورٹ میں پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ 15 سے 49 سال کی عمر کی شادی شدہ خواتین میں سے 23 فیصد کو جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، 26 فیصد کو توہین آمیز برتاؤ کا سامنا ہوتا ہے، اور 5 فیصد خواتین ایسی ہیں جو اپنے شوہر کے ہاتھوں جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔
پنجاب کے مختلف اضلاع میں خواتین کے تحفظ کے لیے دارالامان قائم کیے گئے ہیں، جہاں خواتین کو عارضی پناہ فراہم کی جاتی ہے۔ ان اضلاع میں لاہور، ملتان، بہاولپور، ڈی جی خان، فیصل آباد، مظفر گڑھ، خوشاب، راولپنڈی، سیالکوٹ، اور وہاڑی شامل ہیں۔
سروے کے مطابق، ان اضلاع میں شہید بینظیر بھٹو ہیومن رائٹس سینٹرز فار ویمن (کرائس سینٹرز) بھی قائم کیے گئے ہیں، لیکن ان کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے۔
مزید بتایا گیا ہے کہ پنجاب حکومت نے 2017 میں ملتان میں پہلا وائلینس اگینسٹ ویمن سینٹر (وی اے ڈبلیوسی) قائم کیا تھا، جس میں پولیس، جسمانی اور نفسیاتی علاج، کونسلنگ، اور قانونی معاونت کی خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔
حکومت نے بجٹ 2024-25 میں لاہور، فیصل آباد، اور راولپنڈی میں مزید وائلینس اگینسٹ ویمن سینٹرز (وی اے ڈبلیوسی) قائم کرنے کے لیے فنڈز مختص کیے ہیں۔ لاہور سینٹر کے لیے 125.82 ملین، راولپنڈی کے لیے 169 ملین، اور فیصل آباد کے لیے 300 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔
پنجاب حکومت نے خواتین کے لیے پہلا ورچوئل ویمن پولیس اسٹیشن بھی قائم کیا ہے، جہاں 22 اپریل سے 20 جولائی تک پنجاب بھر سے 50 ہزار خواتین کی شکایات موصول ہوئیں، جن میں سے 3 ہزار 92 کیسز میں تحقیقات جاری ہیں، اور 803 کیسز کو جلد مکمل کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔
خواتین کے خلاف تشدد، اقدام قتل، تیزاب گردی اور دیگر جرائم کے سلسلے میں 3 ہزار 172 مقدمات درج کیے گئے ہیں، جن میں سے 42 ہزار 933 کیسز فریقین کے درمیان صلح یا دیگر وجوہات کی بنا پر ختم کر دیے گئے ہیں۔
ایس ایس ڈی او کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید کوثر عباس نے کہا کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں خواتین کے تحفظ کی صورت حال انتہائی نازک ہے۔
انہوں نے بتایا کہ رپورٹنگ میں مشکلات، معاشرتی رویوں کی خامیوں اور پولیس کے غیر مؤثر ردعمل کے باعث اصل واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جنسی زیادتی کے واقعات میں سزا کی شرح 3 فیصد سے کم ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم نبیلہ شاہین نے کہا کہ ملک میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے اچھی قانون سازی ہوئی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان قوانین پر عمل درآمد کے لیے مؤثر طریقہ کار بنایا گیا ہے؟
پنجاب ویمن پروٹیکشن اتھارٹی کی چیئرپرسن حنا پرویز بٹ نے کہا کہ پنجاب ویمن پروٹیکشن ایکٹ کو شہباز شریف کی سابقہ حکومت نے منظور کیا تھا، لیکن تحریک انصاف کی حکومت کے دوران 4 سال میں اس ایکٹ کے رولز نہیں بن سکے۔ تاہم، اب ان شاء اللہ جلد ہی ویمن پروٹیکشن ایکٹ کے رولز بنا دیے جائیں گے تاکہ عدالتوں میں متاثرہ خواتین کو انصاف مل سکے اور مجرموں کو قانون کے مطابق سزائیں دی جا سکیں۔