"فیض حمید نے آرمی چیف بننے کی آخری لمحے تک بھرپور کوششیں کیں، خواجہ آصف
اسلام آباد: وزیر دفاع اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما خواجہ آصف نے انکشاف کیا ہے کہ سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید آخری وقت تک فوج کے سربراہ بننے کی کوششیں کرتے رہے۔ ایک ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں خواجہ آصف نے کہا کہ ریٹائرمنٹ سے قبل جنرل فیض حمید نے فوج کی قیادت سنبھالنے کی شدید خواہش ظاہر کی اور اس مقصد کے حصول کے لیے متعدد اقدامات کیے۔
خواجہ آصف نے بتایا کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی جنرل فیض حمید کے حق میں نہ صرف ان سے بلکہ مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت سے بھی مسلسل رابطے کیے۔ خواجہ آصف کے مطابق جنرل باجوہ نے فیض حمید کے نام کی حمایت کی درخواست کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر فیض حمید کا نام سامنے آتا ہے تو وہ پیچھے ہٹ جائیں گے، اور اگر عاصم منیر کا نام سامنے آتا ہے تو نواز شریف اور شہباز شریف کو پیچھے ہٹ جانا چاہیے۔
خواجہ آصف نے مزید کہا کہ جنرل باجوہ سے ملاقات کے لیے وہ ہیلی کاپٹر میں سفر کرکے جاتے تھے، اور اس سلسلے میں ان کے ہمراہ اس وقت کے پنجاب اسمبلی کے اسپیکر احمد علی خان بھی موجود ہوتے تھے، جو ان باتوں کے گواہ ہیں۔
وزیر دفاع نے اس انٹرویو میں مزید انکشاف کیا کہ جنرل فیض حمید کی ریٹائرمنٹ کے بعد ملک کی سیاست میں جو واقعات رونما ہوئے، ان میں جنرل فیض کا کردار اہم تھا۔ انہوں نے کہا کہ جس شخص نے فوج میں لامحدود اختیارات کا استعمال کیا ہو، اس کے لیے ریٹائرمنٹ کے بعد پیچھے ہٹنا اور خاموشی اختیار کرنا آسان نہیں ہوتا۔ خواجہ آصف کے مطابق، جنرل فیض نے سیاست میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے لیے مختلف حکمت عملیوں کا استعمال کیا۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ فیض حمید نے اپنے تجربات اور حکمت عملیوں کو یقینی طور پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ شیئر کیا ہوگا، اور ان کے ساتھ مل کر اہم ہدف طے کیے ہوں گے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جنرل فیض حمید نے ممکنہ طور پر اسٹریٹجک ایڈوائزر کے طور پر بھی کردار ادا کیا ہوگا، جو موجودہ حالات اور واقعات سے ظاہر ہوتا ہے۔
وزیر دفاع نے یہ بھی کہا کہ جنرل فیض حمید جیسے افراد کے لیے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنا آسان نہیں ہوتا، اور یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ انہوں نے پس پردہ رہ کر بھی اہم فیصلوں میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھا ہوگا۔ خواجہ آصف کے انکشافات سے سیاسی حلقوں میں نئی بحث کا آغاز ہو سکتا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی فوج کے سابق افسران کس حد تک ملکی سیاست میں مداخلت کر سکتے ہیں۔