کابل میں خودکش حملہ، طالبان کے دعوؤں کے باوجود امن خطرے میں۔۔۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں 11 اگست کو ایک منی بس پر خودکش حملے میں ایک شخص ہلاک اور 11 افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ یہ حملہ کابل کے مغربی علاقے دشت برچی میں ہوا، جو اہل تشیع کمیونٹی کی ایک بڑی تعداد کا مسکن ہے۔ یہ علاقہ تاریخی طور پر ظلم و ستم کا شکار رہا ہے اور حالیہ برسوں میں داعش جیسے گروپس کی جانب سے حملوں کا نشانہ بنتا رہا ہے۔
کابل پولیس کے ترجمان خلیل زردان نے بتایا کہ منی بس پر نصب آئی ای ڈی بم کے ذریعے دھماکہ کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ دھماکے کے بعد تحقیقات جاری ہیں تاکہ حملے کی نوعیت اور اس کے پیچھے کارفرما عناصر کا پتہ چلایا جا سکے۔ تاہم، اس بم دھماکے کی ذمہ داری ابھی تک کسی تنظیم نے قبول نہیں کی ہے۔
یہ دھماکہ ایسے وقت میں ہوا جب ایک روز قبل ہی طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے حوالے سے مغربی ممالک کے خدشات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد پروپیگنڈا قرار دیا تھا۔ ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ افغانستان کی سرزمین پر کوئی غیر ملکی یا مقامی باغی گروہ فعال نہیں ہے اور طالبان حکومت نے ملک میں داعش کے مراکز کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد اگرچہ ملک میں بغاوت کا خاتمہ ہو چکا ہے، لیکن داعش سمیت دیگر مسلح گروہوں کی موجودگی کا خطرہ بدستور موجود ہے۔ طالبان حکومت کے مطابق افغانستان میں دہشت گرد گروپوں کی سرگرمیاں محدود ہیں اور افغان سیکیورٹی فورسز ان پر مکمل نظر رکھے ہوئے ہیں۔
طلوع نیوز کے مطابق، طالبان کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان کا جغرافیہ مکمل طور پر حکومت کے کنٹرول میں ہے اور ملک کے اندر یا باہر سے کسی بھی باغی گروہ کو کسی قسم کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود، دشت برچی جیسے حساس علاقوں میں ہونے والے حملے ملک میں سیکیورٹی کی صورتحال کے بارے میں سوالات اٹھاتے ہیں۔