حسینہ واجد کے 16 سالہ دور میں جماعت اسلامی نے کیا کیا ظلم برداشت کئے،تفصیلی رپورٹ
لاہور:حسینہ واجد کے 16 سالہ دور میں بنگلہ دیش کی حکومت نے 1971 کی جنگی جرائم کے مقدمات کے تحت جماعت اسلامی کے کئی سینئر رہنماؤں کو پھانسی دیں۔
عبدالقادر ملا کو 12 دسمبر 2013 کو پھانسی دی گئی۔ وہ جماعت اسلامی کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل تھے
محمد قمر الزمان کو 11 اپریل 2015 کو پھانسی دی گئی۔ وہ جماعت اسلامی کے سینئر اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل تھے
علی احسن محمد مجاہد کو 22 نومبر 2015 کو پھانسی دی گئی۔
میر قاسم علی کو 3 ستمبر 2016 کو پھانسی دی گئی
موتی الرحمن نظامی کو 11 مئی 2016 کو پھانسی دی گئی
ان رہنماؤں کو پھانسی دینے کا مقصد 1971 کی جنگی جرائم کے لیے انصاف فراہم کرنا بتایا گیا، لیکن جماعت اسلامی اور ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ مقدمات سیاسی بنیادوں پر چلائے گئے تھے اور ان کا مقصد جماعت اسلامی کو کمزور کرنا تھا۔
بنگلہ دیش کی موجودہ سیاسی تاریخ میں حسینہ واجد کی حکومت نے جماعت اسلامی کے خلاف سخت اقدامات کیے ہیں۔ 2009 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد، حسینہ واجد کی حکومت نے جماعت اسلامی پر مختلف نوعیت کے مظالم ڈھائے جن کا مقصد ان کی سیاسی فعالیت کو کمزور کرنا اور ان کے اثر و رسوخ کو ختم کرنا تھا۔
حسینہ واجد نے 1971 کی جنگی جرائم کے مقدمات دوبارہ کھولنے کے لیے خصوصی وار کرائمز ٹریبونل قائم کیا۔ اس ٹریبونل کے تحت جماعت اسلامی کے کئی سینئر رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا اور ان پر جنگی جرائم کے الزامات لگائے گئے۔ ان مقدمات میں بہت سے رہنماؤں کو سزائے موت سنائی گئی اور کئی کو پھانسی دے دی گئی، جن میں عبدالقادر ملا، علی احسن محمد مجاہد، اور میر قاسم علی شامل ہیں۔
حسینہ واجد کی حکومت نے جماعت اسلامی کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کیں۔ جماعت اسلامی کے جلسے، جلوس، اور اجتماعات پر بارہا پابندیاں لگائی گئیں اور ان کے رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں جماعت اسلامی کی تنظیمی ڈھانچے کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔
جماعت اسلامی کے مالی وسائل کو محدود کرنے کے لیے حکومت نے ان کے بینک اکاؤنٹس منجمد کیے اور جماعت سے وابستہ کاروباری اداروں پر پابندیاں عائد کیں۔ اس کا مقصد جماعت کی مالی معاونت کو ختم کرنا اور ان کے کارکنوں کو مالی مشکلات میں ڈالنا تھا۔
جماعت اسلامی کے میڈیا ہاؤسز اور اخبارات پر بھی پابندیاں لگائی گئیں۔ جماعت اسلامی کی حمایت میں لکھنے والے صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کو ہراساں کیا گیا اور ان پر مقدمات دائر کیے گئے۔
حسینہ واجد کی حکومت نے جماعت اسلامی کے کارکنوں اور رہنماؤں کے خلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کیں۔ ان پر تشدد، ماورائے عدالت قتل، اور غیر قانونی گرفتاریاں شامل تھیں۔ جماعت اسلامی کے کارکنوں کو جیل میں بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے اہل خانہ کو ہراساں کیا گیا۔
حسینہ واجد کے 16سالہ دور میں جماعت اسلامی کو سیاسی، مالی، اور سماجی سطح پر شدید مظالم کا سامنا کرنا پڑا۔ ان مظالم کا مقصد جماعت اسلامی کی فعالیت کو کمزور کرنا اور ان کے اثر و رسوخ کو ختم کرنا تھا۔ تاہم، حالیہ سیاسی تبدیلیوں کے بعد جماعت اسلامی کو دوبارہ فعال ہونے کا موقع مل رہا ہے، اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ جماعت بنگلہ دیش کی سیاست میں کیا کردار ادا کرے گی۔