حکومت وقت گزارنے اور بندے توڑنے کے لیے قانون لا رہی ہے:علی ظفر
اسلام آباد :پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر علی ظفر نے نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت وقت گزارنے اور اپنے حامیوں کی تعداد بڑھانے کے لیے ایک نیا قانون لے کر آئی ہے۔ ان کے مطابق حکومت کو علم ہے کہ یہ بل آخرکار ختم ہو جائے گا، اور حکومت کا بنیادی مقصد شاید مدت ملازمت میں توسیع کرنا بھی ہو سکتا ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ بل آئین کے خلاف ہے اور جب اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا تو یہ کالعدم قرار دے دیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ قانون سازی کرنا پارلیمنٹ کا اختیار ہے، لیکن پارلیمنٹ ایسا کوئی قانون نہیں بنا سکتی جو آئین یا بنیادی حقوق کے خلاف ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت کا کام آئین یا قانون کی تشریح کرنا ہے اور اگر پارلیمنٹ کو عدالت کی تشریح پسند نہیں آتی تو پارلیمنٹ کو آئینی شق میں ترمیم کرنی پڑتی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت کو پتا ہے کہ وکلاء بھی موجود ہیں اور اس قانون کو ختم ہونا ہے۔ حکومت کو ایمرجنسی کی صورتحال کا سامنا ہے اور وقت کو گزارنے کے لیے یہ قانون پاس کیا جا رہا ہے تاکہ الیکشن کمیشن کہے کہ فیصلے پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس قانون کو پاس کرانے کے بعد پی ٹی آئی کے لوگوں کو توڑنے کی کوشش کرے گی اور اس طرح آئندہ کی قانون سازی کی جا سکے گی۔
مسلم لیگ ن کے رہنما بلال اظہر کیانی نے اس کے جواب میں کہا کہ پی ٹی آئی کا کوئی ممبر یہ نہیں بتا سکا کہ بل کس طرح غیر آئینی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کے ذریعے قانون کو وضع کیا ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی اپیل ہم نے بل سے پہلے ہی جمع کرا دی تھی۔
یہ بحث اس وقت شدت اختیار کر گئی جب حکومت نے ایک نیا قانون پیش کیا جس کا مقصد ملک میں سیاسی توازن کو تبدیل کرنا تھا۔ تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ حکومت اس قانون کے ذریعے اپنے حامیوں کی تعداد بڑھانا چاہتی ہے جبکہ مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ یہ قانون آئین کے مطابق ہے اور اس کا مقصد الیکشن کے نظام کو بہتر بنانا ہے۔
بیرسٹر علی ظفر کے مطابق، حکومت کا بنیادی مقصد شاید مدت ملازمت میں توسیع کرنا بھی ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت جانتی ہے کہ یہ بل آخرکار ختم ہو جائے گا اور حکومت کے پاس وقت گزارنے کے لیے کوئی اور راستہ نہیں بچا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ بل آئین کے خلاف ہے اور جب اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا تو یہ کالعدم قرار دے دیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عدالت کا کام آئین یا قانون کی تشریح کرنا ہے اور اگر پارلیمنٹ کو عدالت کی تشریح پسند نہیں آتی تو پارلیمنٹ کو آئینی شق میں ترمیم کرنی پڑتی ہے۔
بیرسٹر علی ظفر کے مطابق، حکومت کو پتا ہے کہ وکلاء بھی موجود ہیں اور اس قانون کو ختم ہونا ہے۔ حکومت کو ایمرجنسی کی صورتحال کا سامنا ہے اور وقت کو گزارنے کے لیے یہ قانون پاس کیا جا رہا ہے تاکہ الیکشن کمیشن کہے کہ فیصلے پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس قانون کو پاس کرانے کے بعد پی ٹی آئی کے لوگوں کو توڑنے کی کوشش کرے گی اور اس طرح آئندہ کی قانون سازی کی جا سکے گی۔
مسلم لیگ ن کے رہنما بلال اظہر کیانی نے اس کے جواب میں کہا کہ پی ٹی آئی کا کوئی ممبر یہ نہیں بتا سکا کہ بل کس طرح غیر آئینی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کے ذریعے قانون کو وضع کیا ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی اپیل ہم نے بل سے پہلے ہی جمع کرا دی تھی۔
اس تنازعے کا حل تب ہی ممکن ہو گا جب سپریم کورٹ اس بل کے آئینی حیثیت کا فیصلہ کرے گی۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن دونوں اپنے موقف پر قائم ہیں اور عوام کو اس قانونی جنگ کا نتیجہ دیکھنے کے لیے انتظار کرنا پڑے گا۔