بنگلہ دیش کی سڑکوں پر خون سول نافرمانی کے مظاہروں میں 300 جانیں ضائع
بنگلہ دیش میں سول نافرمانی کی تحریک کے دوران جھڑپوں میں مرنے والوں کی تعداد 300 تک پہنچ گئی ہے۔ حکومت مخالف مظاہروں میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان شدید تصادم کے نتیجے میں یہ ہلاکتیں ہوئیں۔
یہ تحریک گزشتہ روز طلبہ گروپ کی جانب سے شروع کی گئی تھی، جس کے پہلے ہی دن پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں 91 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ یہ بنگلہ دیش کی حالیہ تاریخ میں ایک دن میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہیں۔
مظاہروں کی شدت اور کشیدگی کے پیش نظر دارالحکومت ڈھاکہ میں فوج اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی ہے، اور اہم سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔ وزیر اعظم شیخ حسینہ کے دفتر جانے والے راستوں پر بھی حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں۔
وزیر اعظم حسینہ واجد نے نیشنل سیکیورٹی پینل کے اجلاس کے بعد اپنے بیان میں کہا کہ احتجاج کرنے والے طلبہ نہیں بلکہ دہشت گرد ہیں جو ملک کو غیرمستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت حالات کو قابو میں لانے کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھا رہی ہے۔
4 اگست کو بنگلہ دیش میں پاکستانی ہائی کمیشن نے وہاں موجود پاکستانی طلبہ کو موجودہ صورتحال کے پیش نظر اپنے کمروں تک محدود رہنے کی ہدایت کی ہے۔
یہ تحریک اس وقت شروع ہوئی جب ہائی کورٹ نے ’فریڈم فائٹرز‘ کے بچوں اور پوتوں کے لیے سرکاری نوکریوں میں کوٹہ بحال کرنے کا حکم دیا تھا، جس کے خلاف بنگلہ دیش کے نوجوان سڑکوں پر نکل آئے۔ اس حکم کے بعد 16 جولائی کو ہونے والے مظاہروں میں 6 طلبہ کی موت ہوئی تھی، جس کے بعد ملک بھر میں اسکول غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیے گئے تھے۔
20 جولائی کو حالات کی شدت کے پیش نظر وزیر اعظم نے ملک بھر میں کرفیو نافذ کر دیا تھا، اور انٹرنیٹ سروس بھی معطل کر دی گئی تھی