عدالت نے پی ٹی آئی کی توہینِ عدالت کی درخواست کیوں مسترد کی؟
اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کی جانب سے توہینِ عدالت کی درخواست مسترد کر دی، جس میں عدالتی حکم کے باوجود احتجاج کی درخواست پر فیصلہ نہ ہونے کا الزام تھا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے عامر مسعود مغل کی درخواست پر فیصلہ سنایا۔
پی ٹی آئی نے احتجاج کے لیے درخواست دی تھی جس پر ضلعی انتظامیہ نے بروقت فیصلہ نہیں کیا تھا۔ اس حوالے سے جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے ضلعی انتظامیہ کو ہدایت کی تھی کہ وہ پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ کرے۔ پی ٹی آئی کے مطابق، ڈپٹی کمشنر نے 29 جولائی کو احتجاج کی درخواست پر بروقت فیصلہ نہیں کیا، جس پر پارٹی نے سیکریٹری داخلہ خرم آغا، چیف کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور آئی جی کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ عدالت کی کسی آبزرویشن کی خصوصی طور پر خلاف ورزی نہیں کی گئی، لہذا توہینِ عدالت کی کارروائی کی درخواست مسترد کی جاتی ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے بروقت فیصلہ نہ کرنا کسی عدالتی حکم کی صریح خلاف ورزی کے زمرے میں نہیں آتا۔
جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے ضلعی انتظامیہ کو پی ٹی آئی کی احتجاج کی درخواست پر فوری فیصلہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔ ضلعی انتظامیہ کے پاس اس حوالے سے اختیار تھا کہ وہ سکیورٹی اور امن و امان کے پیش نظر فیصلہ کرے۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ انتظامیہ نے جان بوجھ کر تاخیر کی تاکہ احتجاج کو روکا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ تاخیر پارٹی کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے اس موقف کو تسلیم نہیں کیا اور قرار دیا کہ انتظامیہ نے عدالتی حکم کی کوئی صریح خلاف ورزی نہیں کی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کو احتجاج کی اجازت کے حوالے سے ضلعی انتظامیہ کے فیصلے کا انتظار کرنا ہوگا۔ پارٹی کے رہنماوں نے کہا ہے کہ وہ قانونی راستے اختیار کرتے رہیں گے تاکہ اپنے آئینی حقوق کا تحفظ کر سکیں۔
یہ کیس اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے احتجاج کے حقوق اور انتظامیہ کے اختیارات کے درمیان توازن کیسے قائم کیا جاتا ہے۔ اس فیصلے کے بعد مستقبل میں بھی عدالتیں اس نوعیت کے معاملات میں محتاط رہیں گی تاکہ آئینی حقوق اور امن و امان کے درمیان توازن برقرار رکھا جا سکے