بنگلہ دیش: پرتشدد مظاہرے، 105 ہلاکتیں، کرفیو نافذ، فوج طلب
ڈھاکا: بنگلہ دیش میں حالیہ سیاسی کشیدگی اور مظاہروں کے بعد وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے ملک بھر میں کرفیو نافذ کر دیا اور امن و امان کی بحالی کے لیے فوج کو طلب کر لیا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ‘اے ایف پی’ کے مطابق، حکومت نے مظاہرین کو قابو میں کرنے کے لیے یہ اقدامات کیے ہیں۔
وزیر اعظم کی جانب سے اک دفتری بیان میں بتایا گیا ہے کہ یہ فیصلہ ملک میں سول انتظامیہ کی مدد کے تحت لیا گیا ہے۔ شیخ حسینہ واجد کے پریس سیکریٹری نعیم الاسلام خان نے ‘اے ایف پی’ کو بتایا کہ کرفیو فوری طور پر نافذ العمل ہوگا اور فوج کو بھی فوری طور پر تعینات کیا جا رہا ہے۔
پچھلے کچھ دنوں میں طلبہ اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپوں کے نتیجے میں کم از کم 105 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ مظاہرے 15 سال کے اقتدار کے بعد وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گئے ہیں۔
اس سے قبل، ڈھاکا میں پولیس نے مزید تشدد کو روکنے کے لیے ایک دن کے لیے تمام عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کر دی تھی۔ پولیس چیف حبیب الرحمٰن نے بتایا کہ عوامی تحفظ کے لیے یہ اقدام ضروری تھا۔
تاہم، انٹرنیٹ کی بندش اور پابندیوں کے باوجود مظاہروں میں کمی نہیں آئی اور پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم جاری رہا۔ ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ طلبہ مظاہرین نے وسطی بنگلہ دیش کے ضلع نرسنگدی میں ایک جیل پر حملہ کیا اور قیدیوں کو رہا کرنے کے بعد جیل کو آگ لگا دی۔
ڈھاکا میڈیکل کالج ہسپتال کی تیار کردہ فہرست کے مطابق، جمعہ کو دارالحکومت میں کم از کم 52 افراد ہلاک ہوئے۔ ہسپتال کے عملے کی طرف سے دی گئی تفصیلات کے مطابق، رواں ہفتے رپورٹ ہونے والی نصف سے زیادہ اموات کی وجہ پولیس فائرنگ تھی۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال حکومت کے لیے ایک بڑی آزمائش ہے۔ حکومت کی طرف سے کرفیو اور فوج کی طلبی کے باوجود مظاہرین کی شدت میں کمی نہیں آئی ہے۔ ماہرین کے مطابق، حکومت کو مظاہرین کے مطالبات کو سنجیدگی سے لینا ہوگا تاکہ ملک میں استحکام بحال ہو سکے۔