نو مئی کے 12 مقدمات بانی پی ٹی آئی کا 10 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
تفصیلات کے مطابق انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت لاہور کے ایڈمن جج خالد ارشد نے نو مئی سے متعلق مقدمات کی سماعت کی، جس میں بانی پی ٹی آئی نے اڈیالہ جیل سے بذریعہ واٹس ایپ ویڈیو کال پر حاضری دی اور سانحہ 9 مئی کے واقعات کی ذمہ داری لینے سے انکار کردیا۔
عمران خان نے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ نو مئی کو اسلام آباد میں تھے اور ان کا ان واقعات سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ پرامن احتجاج کے حامی ہیں اور 9 مئی کے واقعات کی جوڈیشل انکوائری کے لیے درخواست دے رکھی ہے، جو ابھی تک زیر التوا ہے۔
عمران خان نے الزام لگایا کہ ان کے خلاف ظلم کیا گیا اور سی سی ٹی وی فوٹیجز غائب کر دی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ کیپٹل ہل میں بھی ویڈیو شواہد کی بنیاد پر سزائیں ہوئیں اور انہوں نے 28 سال میں کبھی کسی کو پرتشدد احتجاج کے لیے نہیں اکسایا۔
جج خالد ارشد نے عمران خان کے بیان اور وکلا کے دلائل کو آرڈر کا حصہ بنانے کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ قانون کے مطابق ہی فیصلہ کیا جائے گا۔ تفتیشی افسران نے مختلف بارہ مقدمات میں بانی پی ٹی آئی کا جسمانی ریمانڈ لینے کی استدعا کی جسے عدالت نے منظور کر کیا
سرکاری وکیل نے مؤقف اپنایا کہ آن لائن حاضری بھی اتنی ہی اہمیت رکھتی ہے ورنہ ثبوت ہی ریکارڈ نہ ہوں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ بانی پی ٹی آئی کو عدالت میں پیش کس لیے نہیں کیا جا رہا ہے
سرکاری وکیل نے کہا کہ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر عمران خان کو عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکتا اور ضمنی میں یہ بات لکھی ہوئی ہے۔ عمران خان کے وکیل ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے اعتراض کیا کہ کوئی حکم موجود نہیں جو عمران خان کی ذاتی حثیت میں پیشی کو ممنوع قرار دے۔
سماعت کے دوران عمران خان کے وکلاء نے اعتراض کیا کہ قانونی طور پر ملزم کو گرفتاری کے بعد 24 گھنٹوں میں عدالت کے سامنے پیش کرنا لازم ہے، لیکن یہاں ایسا نہیں کیا جا رہا۔ عمران خان کے وکیل عثمان ریاض نے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے چند نکات پیش کیے اور کہا کہ راہدری ریمانڈ لیا جا سکتا ہے۔
جج خالد ارشد نے ریمارکس دیئے کہ حکومت نوٹیفکیشن جاری کرے تو سماعت ہوسکتی ہے۔ عمران خان کے وکیل نے کہا کہ عدالت کو اڈیالہ جیل جانا ہوگا اور انہوں نے اپنی دلیل مختصر کرتے ہوئے کہا کہ یہ غیر قانونی اقدام کروانا چاہتے ہیں۔
دوران سماعت، لاہور کے پراسیکیوٹر محمد آذر نے عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی اور کہا کہ انہیں وائس میچ، پولی گراف ٹیسٹ، اور فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ کے لیے درکار ہے۔
پراسیکیوٹر نے عدالت سے کہا کہ عمران خان کو سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر ذاتی حثیت میں پیش نہیں کیا جا سکتا اور حکومت نے ویڈیو لنک کے ذریعے حاضری کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔ عمران خان کے وکلاء نے اس نوٹیفکیشن کو جعلی قرار دیا اور کہا کہ اصل نوٹیفکیشن عدالت کی فائل میں ہونا چاہئے۔
پی ٹی آئی بانی کے وکلا نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ قانون کے مطابق کسٹڈی نہیں دی جا سکتی اور مطالبہ کیا کہ عمران خان کو ڈسچارج کیا جائے۔ ایڈوکیٹ اظہر صدیق نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انکا مقصد عمران خان کو نشانہ بنانا ہے۔
عدالت نے فریقین کے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا
جسے کچھ دیر بعد سناتے ہوئے عمران خان کا 10 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا