پشاور میں پریس کانفرنس کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ دورہ افغانستان سے مسائل حل نہیں ہو جاتے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لیے پہلے بات چیت کرنی پڑتی اور سفارتکاری ضروری ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اس وقت پورے پاکستان میں مثبت سیاست کا فقدان ہے، اور نفرت، انا اور گالم گلوچ کی سیاست چل رہی ہے۔ انہوں نے سنجیدہ سیاسی جماعتوں اور کارکنوں سے اپیل کی کہ وہ غیر سیاسی روایتوں اور غیرجمہوری سیاست کا مقابلہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ عوام اس وقت شدید معاشی بحران کا سامنا کر رہے ہیں، جس میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، غربت اور بے روزگاری شامل ہیں۔ حالات دن بدن بگڑتے جا رہے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے سیکیورٹی صورتحال پر بھی روشنی ڈالی، اور کہا کہ پاکستان نے دہشت گرد تنظیموں کو شکست دی تھی لیکن کچھ فیصلوں کی وجہ سے دہشت گردی کی تنظیمیں دوبارہ سر اٹھا رہی ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ حکومت اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایک آل پارٹیز کانفرنس بلا رہی ہے اور پیپلز پارٹی اس میں اپنا وفد بھیجے گی۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ مثبت سیاست کی ہے اور وہ اسی انداز میں اس آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان مسائل کا حل نکالنا دونوں ممالک کے عوام کے فائدے میں ہے اور بات چیت اور سفارتکاری کے تسلسل کی ضرورت ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ماضی میں غلطیاں ہوئیں لیکن موجودہ حالات کو بہتر نہ کیا گیا تو مسائل بڑھتے جائیں گے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ سیکیورٹی صورتحال کا براہ راست اثر معاشی حالات پر پڑتا ہے، اور صرف حکومتی فیصلوں پر تنقید کرنا مسئلے کا حل نہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے خیبر پختونخوا حکومت پر بھی تنقید کی اور کہا کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں خیبر پختونخوا حکومت کا کردار اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر خیبر پختونخوا کی حکومت گزشتہ 15 سال سے دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے ان کی سہولت کار بنے گی، تو مسائل کیسے حل ہوں گے؟ انہوں نے الزام لگایا کہ صوبے کے وزیر، وزیر اعلیٰ، اسپیکر اور دیگر عہدیدار دہشت گرد تنظیموں کو مالی مدد فراہم کرتے ہیں اور اگر صوبائی حکومت کے بجٹ سے ایسی تنظیموں کو فنڈ ملیں گے تو دہشت گردی کا مقابلہ کیسے کیا جائے گا۔