کسان اتحاد نے حکومت کو دوٹوک وارننگ دے دی ہے کہ اگر 14 اپریل 2025 تک گندم کے نرخ کا اعلان نہ کیا گیا تو خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں کسان سڑکوں پر آ جائیں گے۔ یہ اعلان کسان اتحاد کے چیئرمین خالد کھوکھر نے ملتان میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا، جہاں انہوں نے موجودہ زرعی بحران اور کسانوں کی مشکلات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
خالد کھوکھر نے کہا کہ اس وقت ملک بھر میں تقریباً ڈھائی کروڑ ایکڑ پر گندم کی کاشت کی گئی ہے، لیکن گندم کے کاشتکار شدید ذہنی دباؤ اور مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ ان کے مطابق کاشتکار اس قدر مجبور ہو چکے ہیں کہ اپنے بچوں کے علاج اور تعلیم کے اخراجات تک برداشت نہیں کر پا رہے۔
انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جو مراعات ایک رکنِ اسمبلی کو ملتی ہیں، وہی سہولتیں کسان کو بھی ملنی چاہئیں، کیونکہ وہ ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ خالد کھوکھر کے مطابق اس وقت ایک من گندم اگانے پر کاشتکار کی لاگت 3400 روپے آ رہی ہے، جبکہ مارکیٹ میں اسے صرف 2200 روپے دیے جا رہے ہیں۔ ایسے میں کسان زیورات بیچ کر زرعی ادویات خریدنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے ماضی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جب کسان کو گندم کا مناسب نرخ ملا تھا تو ملکی زرعی گروتھ 6.5 فیصد تک پہنچی تھی، لیکن اب حالات الٹ ہیں، مکئی، چاول اور دیگر فصلیں باہر سے منگوائی جا رہی ہیں، حتیٰ کہ بیج تک درآمد کیے جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے نہ صرف نرخوں کے فیصلے میں تاخیر کی ہے بلکہ صوبہ بندی اور ضلع بندی جیسی بنیادی تقسیم کو بھی ختم کر دیا ہے، جس سے پالیسی سازی میں مزید ابہام پیدا ہو رہا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر چینی کا ریٹ 60 روپے بڑھایا جا سکتا ہے تو آٹے اور گندم کی قیمتوں میں اضافہ کیوں نہیں کیا جا رہا؟
خالد کھوکھر نے اپنے بیان میں واضح کر دیا کہ اگر 14 اپریل تک گندم کا سرکاری نرخ مقرر نہ کیا گیا تو ملتان پریس کلب کے باہر ایک بڑے عوامی احتجاج کا انعقاد کیا جائے گا، جس میں خواتین اور بچے بھی شریک ہوں گے۔ انہوں نے اس احتجاج کو کسانوں کی بقا کی جنگ قرار دیا۔
حکومت کے لیے یہ ایک نازک موقع ہے، کیونکہ اگر کسان سڑکوں پر آ گئے تو یہ نہ صرف زرعی معیشت کے لیے خطرناک ہو گا بلکہ معاشرتی سطح پر بھی ایک بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کسانوں کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرتی ہے یا ایک اور احتجاجی تحریک کا سامنا کرنے کو تیار ہے۔