میانمار میں 500 سے زائد پاکستانیوں کو جبری قید میں رکھنے کا انکشاف ہوا ہے، جن میں درجنوں خواتین بھی شامل ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ان پاکستانیوں کو نہ صرف بیگار کیمپوں میں قید رکھا گیا ہے بلکہ ان پر تشدد بھی کیا جا رہا ہے اور زبردستی غیر قانونی مالی جرائم میں ملوث کیا جا رہا ہے۔
تھائی لینڈ میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر رخسانہ افضال نے تصدیق کی ہے کہ میانمار میں قید 11 پاکستانیوں نے فرار ہونے کی کوشش کی، جن میں سے 6 افراد بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے اور انہیں پاکستان واپس بھیج دیا گیا، تاہم باقی 5 پاکستانی لاپتہ ہیں اور ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں مل سکی۔
رخسانہ افضال نے بتایا کہ پاکستانی نوجوانوں کو سوشل میڈیا پر اچھی ملازمتوں کا جھانسہ دے کر بینکاک بلایا جاتا ہے، جہاں وہ ایجنٹس کو رقم ادا کر کے پہنچتے ہیں، لیکن بعد میں انہیں غیر قانونی طریقے سے میانمار منتقل کر دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میانمار میں قائم مخصوص "اسکیم کمپاؤنڈز” میں پاکستانیوں کو قید کر دیا جاتا ہے، جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ میانمار میں قید پاکستانی شہریوں کو جبری مشقت پر مجبور کیا جا رہا ہے اور ان سے غیر قانونی مالی جرائم بھی کروائے جا رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق یہ لوگ منی لانڈرنگ، سائبر فراڈ اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں میں زبردستی ملوث کیے جا رہے ہیں، جبکہ ان پر جسمانی اور ذہنی تشدد بھی کیا جاتا ہے۔
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان ناصر نے اس معاملے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت میانمار میں پھنسے پاکستانیوں کی بحفاظت واپسی یقینی بنائے گی۔ انہوں نے متعلقہ اداروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ اس معاملے پر فوری کارروائی کریں اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات اٹھائیں۔ پاکستانی حکام اور سفارتی ذرائع کی جانب سے کوششیں کی جا رہی ہیں کہ میانمار میں قید پاکستانیوں کی رہائی کو یقینی بنایا جائے۔ اس حوالے سے تھائی لینڈ، میانمار اور دیگر متعلقہ ممالک سے سفارتی سطح پر بات چیت جاری ہے۔
پاکستانی نوجوانوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ غیر قانونی ایجنٹس اور سوشل میڈیا پر ملنے والی جعلی نوکریوں کے جھانسے میں نہ آئیں۔ پاکستانی ہائی کمیشن نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ کسی بھی بیرون ملک ملازمت کے لیے جانے سے پہلے متعلقہ حکام سے تصدیق ضرور کروائیں تاکہ کسی قسم کے خطرے سے بچا جا سکے۔